افتخار عارف دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو

نظام الدین

محفلین
دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو

کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو

میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے

مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو

میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کے رہے

میں گر پڑوں تو میری پستیوں کا ساتھی ہو

وہ مرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے

گلی گلی میری رسوائیوں کا ساتھی ہو

کرے کلام جو مجھ سے تو میرے لہجے میں

میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو

میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھ کو دیکھے جائے

وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو

وہ خواب دیکھے تو دیکھے مرے حوالے سے

مرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو

(افتخار عارف)
 

تلمیذ

لائبریرین
میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
اگر آپ کسی کے ساتھ fair نہیں تو اس سے یہ توقع کیسے رکھ سکتے ہیں؟
 
Top