دکھ سُکھ تھا ایک سب کا ۔۔۔۔

ظفری

لائبریرین
دکھ سُکھ تھا ایک سب کا
اپنا ہو ، یا بیگانہ
ایک وہ بھی تھا زمانہ
ایک یہ بھی ہے زمانہ

دادا حیات تھے جب
مٹی کا ایک گھر تھا
چوروں کا کوئی کھٹکا
نہ ڈاکوؤں کا ڈر تھا
کھاتے تھے روکھی سوکھی
سوتے تھے نیند گہری
شامیں بھری بھری تھیں
آباد تھی دوپہری
سکون تھا دلوں کو
ماتھے پہ بل نہیں تھا
دل میں کپٹ نہیں تھا
آنکھوں میں چھل نہیں تھا
تھے لوگ بھولے بھالے
لیکن تھے پیار والے
لیکن دنیا سے کتنی جلدی
ہوگئے سب روانہ

دکھ سُکھ تھا ایک سب کا
اپنا ہو ، یا بیگانہ
ایک وہ بھی تھا زمانہ
ایک یہ بھی ہے زمانہ

اب ابا کا وقت آیا
تعلیم گھر میں آئی
تعلیم ساتھ اپنے
تازہ خیال لائی
آگے روایتوں سے
بڑھنے کا دھیان آیا
مٹی کا گھر ہٹا تو
پکا مکان آیا
دفتر کی نوکری تھی
تنخواہ کا سہارا
مالک پہ تھا بھروسہ
ہو جاتا تھا گذارا
پیسہ اگرچہ کم تھا
پھر بھی کوئی نہ غم تھا
کیسا بھرا پڑا تھا
اپنا غریب خانہ

دکھ سُکھ تھا ایک سب کا
اپنا ہو ، یا بیگانہ
ایک وہ بھی تھا زمانہ
ایک یہ بھی ہے زمانہ

اب میرا دور ہے یہ
کوئی نہیں کسی کا
ہر آدمی اکیلا
ہر چہرہ اجنبی سا
آنسو نہ مسکراہٹ
زندگی کا حال ایسا
اپنی خبر نہیں ہے
دولت کا جال ایسا
پیسہ ہے مرتبہ ہے
عزت وقار بھی ہے
نوکر ہیں اور چاکر
بنگلہ ہے کا ربھی ہے
زر پاس ہے زمیں ہے
لیکن سکوں نہیں ہے
پانے کے لیئے کچھ
کیا کیا پڑا ہے گنوانا

دکھ سُکھ تھا ایک سب کا
اپنا ہو ، یا بیگانہ
ایک وہ بھی تھا زمانہ
ایک یہ بھی ہے زمانہ

اے آنے والی نسلوں
اے آنے لوگوں
بویا ہے جو ہم نے
وہ تم کبھی نہ کاٹو
جو دکھ تھے ساتھ اپنے
تم سے قریب نہ ہو
جھیلا ہے جو ہم نے
تم کو نصیب نہ ہو
جس طرح بھیڑ میں ہم
زندہ رہے اکیلے
وہ زندگی محفل
تم سے کوئی نہ لے لے
تم جس طرف سے گذرو
میلہ ہوا روشنی کا
راس آئے تم کو موسم
اس نئی صدی کا
ہم تو سکون کو ترسے
تم پہ سکون برسے
سکون ہو دلوں میں
جیون لگے سہانا

دکھ سُکھ تھا ایک سب کا
اپنا ہو ، یا بیگانہ
ایک وہ بھی تھا زمانہ
ایک یہ بھی ہے زمانہ
 
Top