حزیں صدیقی در وا ہوا نہ کوئی دریچہ کھلا کہیں۔۔۔ حزیں صدیقی

مہ جبین

محفلین
در وا ہوا نہ کوئی دریچہ کھلا کہیں
مایوس ہو کے رہ گئی میری صدا کہیں

کیونکر کسی کو چہرہء خوشبو دکھائی دے
رنگوں کا ٹوٹتا ہی نہیں سلسلہ کہیں

لغزش کا ہر قدم پہ ہے امکاں سنبھل کے چل
زنجیر بن نہ جائے ترا نقشِ پا کہیں

دل جھومنے لگا ہے بگولوں کے رقص پر
راس آ نہ جائے دشت کی آب و ہوا کہیں

خورشیدِ پر جلال ہے یوں میرے ساتھ ساتھ
جیسے میں اپنے سائے میں چھپ جاؤں گا کہیں

گھبرا کے حبسِ شب سے ہوا کی دعا نہ مانگ
پھر شہر میں رہے گا نہ روشن دیا کہیں

مچلے ہزار دل میں تمنائے دل کہیں
ہوتی ہے اپنے پھول سے خوشبو جدا کہیں

حزیں صدیقی

انکل الف عین کی شفقتوں کی نذر

والسلام
 
Top