درندے

اندھیری رات کا راج تھا۔ تھوڑی دیر بعد فجر کی اذانیں بلند ہونے والی تھیں۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا… ماحول پر سکون، سحر زدہ تھا۔ شب زندہ دار اپنی ہی دھن میں مگن محبوب حقیقی کو منانے کے لئے سجدہ ریزیاں، آہ و زاریاں، دلفگاریاں اور دلداریاں اپنائے ہوئے تھے… جبکہ ساکنان ارض نیند کی وادی میں سرگرداں میٹھے و شیریں خوابوں میں مگن تھے۔ گویا صفحہ ارضی پر عارضی طور پر بسنے والے پنچھی دنیا و مافیہا سے بے خبر خواب و خیال کے میٹھے چشموں سے سیراب ہوتے ہوئے پرسکون نیند کے شبستانوں میں آوارہ بادلوں کی طرح اڑتے پھر رہے تھے… لیکن اس پرسکون ماحول کو گلی میں اکٹھے ہو جانے والے آوارہ کتوں کے غول نے تباہ و برباد کر چھوڑا تھا، بھونک بھونک کر اور غرا غرا کر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ کبھی ایک دوسرے پر غرا رہے تھے تو کبھی جھپٹ جھپٹ کر حملہ آور ہوتے ہوئے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔
کتوں کی اس خوفناک جنگ کی بازگشت سننے کے بعد اماں جان کی نیند اڑ گئی اور وہ گھر کے صحن سے ہوتی ہوئی گلی میں آ گئی… اس تجسس میں گرفتار ہو کر کہ دیکھوں باہر ماجرا کیا ہے جو کتوں نے بھونک بھونک کر اور خونخوار انداز میں غرا غرا کر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ گلی میں آتے ہی اس بیچاری بوڑھی اماں کے خوف سے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ کیا دیکھتی ہے کہ ایک شاپنگ بیگ (شاپر) سڑک پر پڑا ہے… تمام خونخوار کتے اس کے اردگرد کھڑے ہیں… ایک شاپر کو منہ ڈالتا ہے تو دوسرا اس پر پل پڑتا ہے… اور… کوشش کرتا ہے کہ ’’شاپر‘‘ وہ اکیلا اٹھا کر لے جائے… شاید کتے کسی گھر سے پڑا ہوا گوشت اٹھا لائے ہیں اور اب اس کو کھانے یا تقسیم کے مسئلہ پر چیر پھاڑنے پر اتر آئے ہیں… اماں وہیں کھڑی کھڑی شاپر کو دیکھنے لگتی ہے… اوہ یہ کیا!!؟ … شاپر ہل رہا تھا… اور تیزی سے ادھر ادھر ہو رہا تھا… مزید غور کیا تو وہ لرز گئی… کپکپا گئی… شاپر میں کوئی زندہ چیز تھی… جو مسلسل حرکت کر رہی تھی… شاید کتے اسی زندہ جان کو پھاڑ کھانے کے لئے بیقرار ہو رہے تھے… اوہ شاید کسی کی مرغی ان کے ہاتھ لگ گئی ہے۔
ایسی ہی کسی سوچ کے تحت اماں جان کتوں کو ڈنڈے سے دھتکارتے ہوئے آگے بڑھی… سڑک کے کنارے پڑے شاپر کے قریب پہنچ گئی… پھر شاپر کے سر پر پہنچ کر جھکی… شاپر کو کھول کر دیکھا… اوہ… اُف …نہیں… نہیں… یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں… بوڑھی اماں کا سر چکرا کر رہ گیا… اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آ رہا تھا… شاپر کے اندر… ایک زندہ وجود… ایک ہمکتی ہوئی … بلکتی ہوئی… منہ بسورتی ہوئی… شدت تکلیف سے کراہتی ہوئی… ننھے ننھے زخمی ہاتھ بلند کئے… بے زبانی کے عالم میں … کسی مسیحا کو مدد کے لئے پکارتی ہوئی… ایک معصوم… خوبصورت نرم و نازک …روئی کے گالوں کی طرح نرم و گداز… گڑیا… ہاں ہاں… حوا کی بیٹی… ایک گڑیا… پڑی رو رہی تھی… چند لمحوں پہلے اس دنیا پر آئے ہوئے اس کے وجود کو بعض جگہوں سے کتوں نے کاٹ کھایا تھا… اس کائنات میں قدم رکھتے ہی وہ خون خون تھی … کتے تھے کہ اسے کھانے کے لئے آپس میں لڑ رہے تھے… بوڑھی اماں نے دیکھا تو چیخی… اے معصوم گڑیا… اے میری شہزادی… تجھے تتی (گرم) ہوا نہ لگے… تینوں (تجھے) رب دیا رکھاں… ستے ای خیراں ہو جان گیاں… ابھی تم نے اس دنیا سے منہ موڑ کر جانا نہیں… میں تجھے اپنے گلشن کا مہکتا پھول بنائوں گی… تیرے لئے بہار کا جھونکا بن جائوں گی… پھر وہ اسے اٹھا کر دیوانہ وار بھاگتی ہوئی… روتی بلکتی… لوریاں دیتی ہوئی… دعائیں پڑھتی… اللہ سے اس کی سلامتی کی دعائیں مانگتی ڈاکٹر کے پلاس لے جاتی ہے اور پکارتی ہے: ڈاکٹر صاحب اس معصوم کلی کو بچا لو … جو چند لمحے پہلے دنیا میں آئی ہے… لیکن اس بیچاری کو خونخوار کتوں نے چیر کھایا ہے۔ ڈاکٹر سب کچھ چھوڑ کر اس ننھی جان کو انجکشن… لگاتا ہے… جسم سے خون صاف کر کے ڈریسنگ کرتا ہے… حوا کی بیٹی دنیا میں آتے ہی چر کے کھانے کے بعد جاں بلب نشتروں کی زد میں آ کر… تکلیف دہ انجکشنوں کی سولی چڑھ کر… آخر بچ جاتی ہے… اور آخر اپنی چھوٹی چھوٹی روشن آنکھیں گھما کر مٹک مٹک ادھر ادھر دیکھنے لگتی ہے… گویا مشاہدہ کر رہی ہو کر میں اندھیر نگری سے کس روشن مگر تاریک دنیا میں آ گئی ہوں۔
سورج طلوع ہوتا رہا… چاند غروب ہوتا رہا… مدوجزر کے تحت موجوں کی روانیاں اپنے جوبن میں شور مچاتی ابھرتی اور غائب ہوتی رہیں… پھول کھلے مر جھا گئے… کلیاں کھلیں اور چٹخیں… گلاب رتیں آئیں لیکن تعاقب میں خزاں کی آندھیاں ان کو ختم کرتی رہیں… چشموں کی روانی، سیرابی اور شاد کامی کے سلسلے چلتے رہے… سال پر لگا کر آئے اور چلے گئے۔ چند سال بعد گھر کے صحن میں ایک کومل سی… چھوئی موئی سی… نازک حساس … سمٹی سمٹائی… سہمی سی… خاموش، خاموش سی… گڑیا گھر کے آنگن میں کھیل رہی ہے۔ بوڑھی اماں اپنے کام میں مصروف ہے کہ گھر کے دروازے پر دستک ہونے پر دروازہ کھولا گیا تو سامنے ایک نووارد کھڑا ہوتا ہے۔ جی بیٹا کیا کام ہے اور کس سے ملنا ہے؟ اماں گویا ہوتی ہے۔ جوان کہتا ہے: اماں آپ سے ملنا ہے اور … اور… ایک گزارش کرنی ہے…بیٹا، میں سمجھی نہیں سیدھی طرح بات کرو۔ اماں جان وہ بچی جس کا نام آپ نے فاطمہ رکھا ہے، وہ میری ’’…‘‘ ہے، مجھے دے دیں مہربانی ہو گی۔ اماں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا… بے یقینی کے عالم میں گویا ہوئی: تم کیسے دعویٰ کر سکتے ہو، یہ تو میری بیٹی ہے، مجھے جان سے بھی پیاری۔ اماں جھوٹ نہ بولو، تمہارے خاوند کو فوت ہوئے 10 برس ہو گئے ہیں پھر یہ تمہاری بیٹی کیسے ہوئی۔ ٹھہرو میں بتاتا ہوں۔ آج سے چند سال پیچھے جائو، رات کے وقت تم نے اسے کتوں سے چھڑایا اور ڈاکٹر ریاض کے پاس لے گئیں… اور بھرپور کوشش کے بعد کئی دن بعد اس کی جان بچی… جبکہ میں گلی کی نکڑ پر کھڑا سب دیکھ رہا تھا۔ ڈاکٹر کے کلینک پر بھی تمہارے پیچھے پیچھے پہنچ گیا تھا، کچھ یاد آیا؟ اماں نے یہ سنا تو بے ساختہ کہا… ہائے اللہ!… ہمیں بچانا ایسے درندوں سے … درندے وہ کتے نہیں… تم تھے… جو بچی کو شاپر میں ڈال کر گلی میں پھینک دیا… اور پھر دور کھڑے… درندوں سے اس کی تکہ بوٹی ہوتے دیکھتے رہے… کیسے ’’باپ‘‘ ہو؟… درندے… بلکہ اس سے بھی بڑھ کر… اس لئے کہ تم اسے اب بھی ’’بیٹی‘‘ کے نام سے نہیں پکار رہے… اور شاید دنیا والوں کے سامنے اسے بیٹی ماننے کی جرأت بھی نہیں کر سکتے۔ تواس کی حفاظت کیا کرو گے، تیرا کیا بھروسہ یہاں سے لے جانے کے بعد پھر کسی اور طرح کے درندوں کے سامنے پھینک دو۔ میں ہرگز تمہارے حوالے نہ کروں گی، چلے جائو یہاں سے… یہ جوان اماں جان کو طرح طرح کی دھمکیاں دیتے ہوئے چلا گیا۔
کیا وہ بیٹی کی محبت میں یہاں آیا ہے اور اسے حاصل کر کے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے… یا اسے حاصل کر کے اپنے جرم کا نشان مٹانے یہاں آیا ہے… یہ اللہ کریم ہی بہتر جانتا ہے۔
یہ پری آج بھی میرے گھر کے قریب انجانے مستقبل کی منزلوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جب اس بچی سے نام پوچھیں تو صحیح طرح بتا نہیں سکتی… اکثر بنجر زمین اور بے آب و گیاہ ریگستانوں میں جنم لینے والے خود رو پودے منہ زور طوفانوں کا مقابلہ کرنے سے قاصراور اپنے وجود سے بے خبر ہوتے ہیں۔ اس کے مستقبل کا کیا بنے گا؟… یہ کل کس کو ابو جان اور امی جان کہے گی!!!؟… اس بے درد و بے حس معاشرے نے کل اس کو طعنے کے طور پر یہ کڑوی حقیقت بتا دینی ہے کہ وہ بے جڑ کا خود رو پودا ہے… کیا وہ ایسے سفاک درندے انسان کہ جس نے اسے ظالم سنسار میں بے نام و نشان، بے آسرا و بے سہارا ذلت و رسوائی کے تندو تیز جھکڑ سہنے پر مجبور کر دیا۔ کیا وہ ایسے انسان کے لئے ہر وقت ہاتھ اٹھا اٹھا کر بددعائیں نہ کرے گی… کیا اس کی یہ آہ و زاریاں ود لفگاریاں عرش الٰہی کو ہلا کر نہ رکھ دیں گی… حرام لذت کے کڑوے گھونٹ پینے والو… بچ جائو ایسے مظلوم کی بددعا سے… جو براہ راست عرش الٰہی پر سنی جاتی ہے… اس کی گناہگار ماں کا بیٹی کی طرح کیا حال ہوا؟ اس کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ اگر وہ زندہ بھی ہوئی تو مردوں سے بدتر ہو گی… ضمیر کی عدالت ہی اسے ہر دم کوڑے لگاتی ہو گی… ایسی زندگی مرنے سے بدتر ہوتی ہے۔
آج ہی اپنی اولاد کو ہر طرح کی بے پردگی سے بچائیں۔ خاص طور پر ٹیلی فونک بے پردگی سے… آپ کی بیٹی کے تحفظ کی ضمانت ہم دیتے ہیں۔

کالم نگار۔۔۔۔طاہر نقاش
بشکریہ ،،۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 
Top