درد کُش ڈیوائس

عاطف بٹ

محفلین
216_18665594.jpg
اس ایجاد کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے۔ جان کرسٹیناسن ایک جہاز ران تھا۔ اس نے 1985ء میں ایک جہاز کرائے پر لیا اور امریکی ریاست ورجینیا کی جیمز ٹاؤن بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ اپنے جہاز کی صفائی کے دوران اس کا پاؤں مشینی ربڑ میں آگیا اور اس کے کچھ ٹشوز خراب ہوگئے۔ اس کو پاؤں میں مستقل درد کا عذاب جھیلنا پڑا۔ ایک دن تنگ آ کر اس نے اس درد پر تحقیق شروع کی۔ اسے معلوم ہوا کہ پورے جسم کا نظام اعصاب اور دماغ کے باہمی ربط پر تکیہ کرتا ہے۔ اس نے اپنے انجینئر دوستوں کی مدد سے ایک ایسا آلہ تیار کرلیا جس میں 13 پریشر سنسر لگے ہوئے تھے۔ جیسے ہی وہ پاؤں زمین پر رکھتا یہ سنسر اعصاب کو پیغام ڈلیور کرتے اور دماغ وہاں سے ان پیغامات کی روشنی میں ہدایات فراہم کرتا جس سے خراب ٹشوز کی وجہ سے ہونے والے درد میں افاقہ محسوس کیا جانے لگا۔ یہ ایجاد مستقبل میں مریضوں کیلئے نعمت ثابت ہوگی۔ اس بناء پرجان کرسٹیناسن کو 2012ء کا انوویشن ایوارڈ دیا گیا۔​
 

محمد امین

لائبریرین
216_18665594.jpg
اس ایجاد کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے۔ جان کرسٹیناسن ایک جہاز ران تھا۔ اس نے 1985ء میں ایک جہاز کرائے پر لیا اور امریکی ریاست ورجینیا کی جیمز ٹاؤن بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔ اپنے جہاز کی صفائی کے دوران اس کا پاؤں مشینی ربڑ میں آگیا اور اس کے کچھ ٹشوز خراب ہوگئے۔ اس کو پاؤں میں مستقل درد کا عذاب جھیلنا پڑا۔ ایک دن تنگ آ کر اس نے اس درد پر تحقیق شروع کی۔ اسے معلوم ہوا کہ پورے جسم کا نظام اعصاب اور دماغ کے باہمی ربط پر تکیہ کرتا ہے۔ اس نے اپنے انجینئر دوستوں کی مدد سے ایک ایسا آلہ تیار کرلیا جس میں 13 پریشر سنسر لگے ہوئے تھے۔ جیسے ہی وہ پاؤں زمین پر رکھتا یہ سنسر اعصاب کو پیغام ڈلیور کرتے اور دماغ وہاں سے ان پیغامات کی روشنی میں ہدایات فراہم کرتا جس سے خراب ٹشوز کی وجہ سے ہونے والے درد میں افاقہ محسوس کیا جانے لگا۔ یہ ایجاد مستقبل میں مریضوں کیلئے نعمت ثابت ہوگی۔ اس بناء پرجان کرسٹیناسن کو 2012ء کا انوویشن ایوارڈ دیا گیا۔​


بہت خوب۔۔۔ میری دلچسپی کی چیز ہے۔ میں اس کے بارے میں مزید پڑھنا چاہتا تھا، گوگل کیا تو کچھ ملا نہیں۔
 

محمد امین

لائبریرین
امین بھائی، مجھے بھی گوگل پر کچھ نہیں ملا۔ اخبار میں ہی نظر آئی تھی یہ خبر!

مل گیا۔۔۔!

http://www.popsci.com/category/category-badges/invention-awards-2012

مگر یہ سائٹ کھولنے پر پیغام آرہا ہے کہ آپ کی آئی پی گرے لسٹد ہے۔۔۔ خیر پروکسی سے کھل گیا۔۔۔ تفصیل بھی پڑھ لی۔۔
Long before he became an inventor, Jon Christiansen was a sea captain. In 1985 he was hired to sail a replica of the Godspeed, the ship that landed at Jamestown, Virginia, in 1607, in a reenactment of the original voyage. One day while he was cleaning the ship’s hull, someone spun the wheel, trapping Christiansen’s leg between the rudder and a support post. The accident severed or damaged most of the nerves below his left knee. Doctors told him he would never have feeling in his left foot again.
Christiansen had the strength to walk with a cane, but without feeling in his foot, he could not gauge when each step hit the ground without looking down. After a painful fall in 2003, he recruited two friends, engineers Richard Haselhurst and Steve Willens, to help him find a better way to get around. Willens came up with the idea of using tones to signal Christiansen’s brain when his feet touched the ground, and in 2006 the three built a prototype of Sensastep.


To use Sensastep, the patient wears a conductive foam insole embedded with 13 pressure sensors. As the heel or toe strikes the ground, a transmitter strapped to the ankle sends signals to a receiver that slips over the ear. The earpiece vibrates against the bone behind the ear, stimulating the cochlear nerve. Variations in the vibrations, which the patient perceives as audible tones, alert the brain to which part of the foot has contacted the ground. Christiansen and other patients don’t need to look down and watch every step they take to avoid falls.
Sensastep could help patients with sensory and motor-skill disabilities caused by diabetic neuropathy or Parkinson’s disease, as well as those with balance problems from strokes or injuries. Compared with other assisted-walking devices, it will be convenient: The insole fits in any shoe, and the ankle and earpiece charge like a cellphone. The inventors have also developed an app to track patients’ improvement.
Now they are looking for a medical-device company to license Sensastep. “We could go into production tomorrow,” Christiansen says. “My goal is to get it out there and help as many people as possible.”
Inventors: Jon Christiansen, Richard Haselhurst, Steve Willens
Invention: Sensastep
Cost to Develop: $200,000
Distance to Market: short ● ● ● ● long



HOW IT WORKS


Sensors in an insole register a patient’s toe and heel strike and send that information to an ankle transmitter, which sends the data to an ear receiver. The earpiece vibrates against a bone behind the ear, transmitting a signal to the cochlear nerve that is registered by the brain.
ترجمہ بھی تھوڑا غلط کیا گیا ہے۔ بہرحال بہت اچھی چیز ہے۔​
 

محمد امین

لائبریرین
اور تھوڑی انگریزی پڑھنے کے بعد مجھے لگ رہا ہے کہ درد کش نہیں ہے بلکہ چلنے میں مدد دینے والی ڈیوائس ہے ۔۔۔ کیا ایسا ہی ہے؟ :sad:
 

عاطف بٹ

محفلین
اور تھوڑی انگریزی پڑھنے کے بعد مجھے لگ رہا ہے کہ درد کش نہیں ہے بلکہ چلنے میں مدد دینے والی ڈیوائس ہے ۔۔۔ کیا ایسا ہی ہے؟ :sad:
ایسا ہی ہوگا کیونکہ درد کش ڈیوائس تھوڑی عجیب سی بات لگتی ہے۔ میں اس پر تحقیق کرلوں پھر تفصیل لکھوں گا اس کی!
 

سعادت

تکنیکی معاون
اور تھوڑی انگریزی پڑھنے کے بعد مجھے لگ رہا ہے کہ درد کش نہیں ہے بلکہ چلنے میں مدد دینے والی ڈیوائس ہے ۔۔۔ کیا ایسا ہی ہے؟ :sad:

بالکل ایسا ہی ہے۔

یہ ڈیوائس درد کُش نہیں ہے، بلکہ پیر اور دماغ کے درمیان منقطع ہو جانے والے اعصابی نظام کو دوبارہ بحال کرتی ہے۔ کرسٹینسن کو جب ٹانگ میں چوٹ لگی تھی تو اس کے بائیں گھُٹنے کے نیچے موجود اعصاب جواب دے گئے تھے، اور ڈاکٹرز نے اسے بتایا تھا کہ اب وہ اپنے پیر کو محسوس نہیں کر سکے گا۔ چھڑی کی مدد سے جب اس نے دوبارہ چلنا شروع کیا تو پیر اور دماغ میں رابطہ نہ ہونے کے باعث اسے پتہ نہیں چلتا تھا کہ چلنے کے دوران کب اس کا پاؤں زمین پر ٹھہر چکا ہے، اور یوں اسے بار بار نیچے دیکھنا پڑتا تھا۔ 2003ء میں اسی وجہ سے وہ بری طرح نیچے گرا، اور اس کے بعد اس نے اپنے دو انجینیئر دوستوں کے ساتھ اِس مسئلے کا حل نکالنے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں یہ ڈیوائس ایجاد ہوئی۔

مریض یہ ڈیوائس پاؤں کے نیچے پہنتا ہے۔ جب بھی مریض کا پاؤں زمین سے ٹکراتا ہے تو اس ڈیوائس میں لگے سینسرز ٹخنے کے ساتھ لگے ٹرانسمیٹر کو مطلع کرتے ہیں، اور یہ ٹرانسمیٹر کان کے ساتھ لگے ایک ریسیور کو اشارہ کرتا ہے۔ ریسیور پیغام وصول کر کے کان کے پیچھے موجود ہڈی کے ساتھ تھرتھراتا ہے اور cochlear nerve کو تحریک دیتا ہے۔ مریض ان تھرتھراہٹوں کو صوتی اشاروں کی صورت میں سُنتا ہے، اور یہ صوتی اشارے دماغ کو یہ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ پاؤں کا کونسا حصہ اس وقت زمین کے ساتھ ٹکرایا ہے۔ اور اس طرح مریض کو چلتے ہوئے نیچے دیکھنے کی حاجت نہیں رہتی۔

حوالہ: 2012 Invention Awards: An Assisted-Walking Device That Senses Your Step (وہی ویب سائٹ جو محمد امین نے اوپر شیئر کی ہے۔)
 
Top