انیس دربار میں‌ جب کٹ کے یتیموں کے سر آئے - میر انیس (مرثیہ)

حسان خان

لائبریرین
دربار میں‌ جب کٹ کے یتیموں کے سر آئے
ڈوبے ہوئے دو چاند لہو میں نظر آئے
غل پڑ گیا مسلم کے یہ لختِ جگر آئے
غربت زدہ و بے وطن و بے پدر آئے
شمشیرِ ستم چل گئی ان نوحہ گروں پر
کیا بیکسی و یاس برستی ہے سروں پر
یہ اُس کے پسر ہیں کہ جو تھا مسلمِ بے پر
یہ اس کے پسر ہیں کیا جس کو تہِ خنجر
سر کاٹ لیا لاش پھری گلیوں میں در در
اب تک نہ ہوا گور و کفن جس کو میسر
بابا کو انہیں کے تہِ شمشیر کیا ہے
پاؤں میں رسن باندھ کے تشہیر کیا ہے
حاکم سے یہ تب کہنے لگا حارثِ بدکام
سر بچوں کے لایا ہوں ملے خلعت و انعام
پہچان لے مسلم کے پسر ہیں یہی گلفام
یہ وہ ہیں جو زندان سے بھاگے تھے سرِ شام
میں ڈھونڈتا پھرتا تھا نہ ہاتھ آتے تھے دونوں
پاتے تھے جدھر راہ نکل جاتے تھے دونوں
حاکم نے کہا تو نے کہاں پھر انہیں پایا
تاریکئ شب میں نظر آتا نہیں سایا
وہ جوڑ کے ہاتھوں کو سخن لب پہ یہ لایا
زوجہ نے مری تھا انہیں حجرے میں چھپایا
میں کہتا تھا دل میں کہ کہاں جا کے چھپے ہیں
اس کی نہ خبر تھی مرے گھر آ کے چھپے ہیں
از بس کہ تھکا تھا مجھے نیند آ گئی اُس دم
کیا دیکھتا ہوں عالمِ رویا میں بہ صد غم
اک حجرے میں دو طفل نظر آتے ہیں باہم
سر پیٹ کے کہتے ہیں وہ با دیدۂ پُرنم
آئے ہیں کہاں ہم درِ زنداں سے نکل کے
معلوم ہوا پڑ گئے پھندے میں اجل کے
چلّائے جو وہ ہائے پدر کہہ کے دل افگار
بے ہوش تھا یا آنکھ مری کھل گئی اک بار
خوش ہو گیا میں طالعِ خفتہ ہوئے بیدار
بستر سے اٹھا ہاتھ میں کھینچے ہوئے تلوار
اک حجرے میں مسلم کے وہ پیارے نظر آئے
بالائے زمیں عرش کے تارے نظر آئے
پکڑا جب انہیں میں نے تو کرتے تھے یہ فریاد
مہماں ترے گھر آئے ہیں ہم بیکس و ناشاد
بِن باپ کے ہیں ہم پہ ترس کر ستم ایجاد
لے منتیں کرتے ہیں تری چھوڑ دے جلّاد
کر رحم کہ معصوم ہیں دکھ پائے ہیں ظالم
ہم چھپنے کو دامن میں ترے آئے ہیں ظالم
بے سر نہ ہمیں کر تجھے داور کی قسم ہے
تیوری نہ چڑھا تجھ کو پیمبر کی قسم ہے
بس ظلم کو کم کر تجھے حیدر کی قسم ہے
کر رحم تجھے فاطمہ اطہر کی قسم ہے
دہشت سے تری سینوں میں دل ہلتے ہیں ظالم
اب ڈھیلی رسن کر دے گلے چھلتے ہیں ظالم
میں نے کہا تم دونوں کے بابا کا ہے کیا نام
رو کر کہا کہتے ہیں انہیں مسلمِ ناکام
بے جرم و ستم اُن کے گلے پر چلی صمصام
ہم جب سے چھٹے باپ سے ہم کو نہیں آرام
آگاہ ہو مسلم کے ہمیں لختِ جگر ہیں
مارا ہے دغا سے جسے ہم اُس کے پسر ہیں
یہ سنتے ہی غصہ مجھے معصوموں پہ آیا
حجرے سے انہیں کھینچتا دالان میں لایا
ان دونوں نے جو ظلم نہ دیکھا وہ دکھایا
مجرم کی طرح باندھ دیا رحم نہ آیا
باہر انہیں لے آیا جو زلفوں کو پکڑ کر
استادہ کیا چوب سے رسی میں جکڑ کر
جب لے کے چلا گھر سے اُنہیں قتل کی خاطر
زوجہ نے یہ کہہ کر مرے پاؤں پہ رکھا سر
مہماں مرے گھر آئے ہیں یہ دونوں مسافر
لے اِن کے عوض کاٹ لے سر ہے مرا حاضر
تقصیر جو کچھ ان سے ہوئی ہو وہ بحل کر
ہے ہے مجھے مہمانوں کے آگے نہ خجل کر
للہ تو معصوموں کے اب چھوڑ دے بازو
کیوں کھینچتا ہے بچوں کے پکڑے ہوئے گیسو
تلوار کو کر میان میں ڈرتے ہیں یہ گل رو
قربان میں چپ ہیں یہ بھرے آنکھوں میں آنسو
کس یاس سے ہے ہے مرا منہ تکتے ہیں دونوں
دہشت سے تری کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں دونوں
یہ کہہ کے جو بچوں کو چھڑانے لگی اک بار
جھنجلا کے میں بولا تجھے کیا ان سے سروکار
جا دور ہو کہنا ترا مانوں گا نہ زنہار
میں قتل کروں گا یہ ہیں حاکم کے گنہگار
اب حلق سے معصوموں کے شمشیر ملے گی
سر اُن کے دکھاؤں گا تو جاگیر ملے گی
سمجھانا نہ ہرگز وہ مرا دھیان میں لائی
جھنجلا کے اسے ضربِ ستم میں نے لگائی
اک وار میں ساعد سے گری کٹ کے کلائی
چلّا کے لگی دینے پیمبر کی دُہائی
ہے ہے مرے آقا مری امداد کو پہونچو!
اے شاہِ غریباں مری فریاد کو پہونچو!
مظلوموں کی لے لے کے بلائیں یہ پکاری
اب تم سے جدا ہوتی ہے لونڈی یہ تمہاری
شکوہ نہ مرا کیجیو زہرا سے میں واری
کس طرح بچاؤں مجھے تلوار ہے ماری
مجبور ہیں طاقت نہیں اٹھنے کی زمیں سے
اللہ بچاوے تمہیں اس دشمنِ دیں سے
جب مار چکا اُس کو تو معصوموں کو کھینچا
پکڑے ہوئے زلفیں انہیں دربار میں لایا
رو کر کہا بچوں نے ہمیں قتل نہ کرنا
مارے گا جو ہم کو ترے کیا ہاتھ لگے گا
بیکس ہیں مسافر ہیں اور آوارہ وطن ہیں
یہ کیا ہے سزا کم کہ گرفتارِ رسن ہیں
کر رحم ستمگار غریبی پہ ہماری
دیوے گا صلہ اس کا تجھے ایزدِ باری
لے آنکھیں نہ دکھلا نہیں اب کرنے کے زاری
چل کر سرِ بازار ہمیں بیچ لے ناری
بچ جائیں گے ہم خلعت و زر پائے گا ظالم
گر قتل کیا ہم کو تو پچھتائے گا ظالم
گر یاں نہ بِکیں ہم تو مدینے ہمیں لے جا
دلوائیں گے ہم تجھ کو زر و مال بہت سا
مادر نے گرفتارِ رسن جب ہمیں دیکھا
جو مانگے گا تو تجھ کو وہی دیویں گے دلوا
پاویں گی جو ہم کو ترے قدموں پہ گریں گی
کس طرح محبت سے ترے گرد پھریں گی
ہے قتل ہی منظور اگر تجھ کو ستمگار
ہم دونوں کی مادر کو دکھا دے ہمیں اک بار
باقی نہ دلوں میں رہے تا حسرتِ دیدار
پھر شوق سے سر کر دے تہِ خنجرِ خونخوار
ہم بندگئ رب کریں تو ہم پہ جفا کر
اک ہاتھ میں سر دونوں کے تن پر سے جدا کر
پھر آگے بڑھا ہاتھ میں کھینچے ہوئے تلوار
پہلو میں برادر کے ہوا غش وہ دل افگار
میں چھاتی پہ اس طفل کی جا کر ہوا اسوار
جب حلق پہ بچے کے رکھا خنجرِ خونخوار
اک حشر بپا ہو گیا خنجر کے چلے پر
بھائی نے گلا رکھ دیا بھائی کے گلے پر
اک بی بی کھلے سر نظر آئی مجھے اُس آں
میں نے کہا تو کون ہے بولی بہ صد افغاں
میں مادرِ شبیر ہوں اے دشمنِ ایماں
بچوں کو مرے کر نہ تہِ خنجرِ برّاں
دکھ دے نہ مرے دل کو میں دکھ پائی ہوں ظالم
ان لاشوں پہ رونے کے لیے آئی ہوں ظالم
ہرگز نہ سنا پھیر دیا خنجرِ خونخوار
سر کاٹ لیا رہ گئی روتی وہ دل افگار
اور دونوں‌ کے تن پھینک دیے نہر میں اک بار
دریا کی ترائی سے ہوئے ہاتھ نمودار
سر پیٹتے ہاتھوں سے پیمبر نظر آئے
آغوش میں مسلم کے وہ دلبر نظر آئے
یہ کہہ کے دکھانے لگا ان بیکسوں کے سر
مظلومی پہ معصوموں کی رویا وہ ستمگر
پھر کہنے لگا حاکمِ اظلم سے یہ ہنس کر
کیا دیر ہے منگوا دے ہمیں خلعتِ پُرزر
جو کام کیا میں نے وہ ہوتا نہ کسی سے
کچھ کم نہیں یہ قتلِ حسین ابنِ علی سے
یہ سنتے ہی حاکم کا جگر ہو گیا پانی
بولا ارے یہ کیا کیا او ظلم کے بانی
بے سر کیے کیوں مسلمِ مظلوم کے جانی
جو میں نے کہا تھا وہ مری بات نہ مانی
کب میں نے کہا تھا تجھے سر لائیو ظالم
مل جائیں تو قیدی انہیں کر لائیو ظالم
معصوموں کو مارا تجھے کچھ رحم نہ آیا
مہمانوں کو اے دشمنِ دیں تو نے ستایا
کس جرم پہ بچوں کو تہِ تیغ بٹھایا
جیتا تو نہ لایا تو اُنہیں مار کے لایا
کس واسطے محتاجوں کو ناداروں کو مارا
تقصیر تھی کیا جو وطن آواروں کو مارا
یہ ظلم کوئی کرتا ہے او ظالمِ بدخو
رسی میں کسے ہائے غضب دونوں کے بازو
آگے مرے سر لایا ہے پکڑے ہوئے گیسو
مارا انہیں کیا صاحبِ اولاد نہ تھا تو
نازاں ہے کہ اب منصب و جاگیر ملے گی
ظالم تری گردن سے بھی شمشیر ملے گی
یہ کہہ کے اشارہ کیا ظالم نے جو اک بار
اک شخص نے بس دوڑ کے ماری اسے تلوار
سر اُڑ گیا یاں سے گیا ناری طرفِ نار
بس روک لے خامے کو انیسِ جگر افگار
ہے وقتِ مناجات دعا مانگ خدا سے
محفوظ رہوں خلق میں مَیں رنج و بلا سے
(میر انیس)
 
دبدبہ بھی ہو، مصائب بھی ہوں، توصیف بھی ہو
دل بھی محفوظ ہو، رقت بھی ہو، تعریف بھی ہو۔۔۔کیا بات ہے !
خوب ہے بھئی ماشاءاللہ ۔۔جیتے رہیئے۔
 
Top