خُود اپنی گواہی کا بھروسہ بھی نہیں کُچھ

Qaisar Aziz

محفلین
خُود اپنی گواہی کا بھروسہ بھی نہیں کُچھ
اور اپنے حریفوں سے تقاضہ بھی نہیں کُچھ

خُود توڑ دیئے، اپنی انا کے در و دیوار
سایہ تو کُجا سائے کا جھگڑا بھی نہیں کُچھ

صحرا میں بھلی گُزری، اکیلا تھا تو کیا تھا
لوگوں میں کسی بات کا چرچا بھی نہیں کُچھ

اب آ کے کُھلا، کوئی نہیں، کُچھ بھی نہیں تھا
اور اس پہ کسی غم کا مداوا بھی نہیں کُچھ

اب یُوں بھی نہیں ہے کہ میں بیکار گیا ہوں
اب یُوں بھی نہیں ہے کہ کمایا بھی نہیں کُچھ

دیکھو تو کسی غم کی تلافی بھی نہیں کی
سوچو تو کسی زخم سے پایا بھی نہیں کُچھ

وہ شکل مِرے دھیان میں آئی بھی تھی سو بار
وہ رنگ، مِری روح میں اُترا بھی نہیں کُچھ

ویسے مِرے اطوار بُرے تھے، کہ بھلے تھے
لوگوں سے کبھی میں نے چھپایا بھی نہیں کُچھ

جس گھر کو مِرے نام سے نسبت کی سند ہے
اس گھر میں مِرے نام کا رکھا بھی نہیں کچھ

احباب مِرے حق میں دعا کرتے ہیں، یعنی
دُنیا میں ابھی آیا تھا، دیکھا بھی نہیں کُچھ

نویدؔ صادق
 
Top