خونی پودے

عندلیب

محفلین
خونی پودے

ہم اپنی روزمرہ زندگی میں آج تک یہ دیکھتے اور سنتے آئے ہیں کہ پیڑ پودے ہماری غذا ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ دنیا میں کچھ ایسے بھی پیڑ ہیں جن کی غذا انسان اور جانور ہیں۔
سب سے پہلے ان حیرت انگیز پودوں کاپتہ لگانے والا ایک اسڑیلین سیاح تھا۔ وہ جنگلی جڑی بوٹیوں کی تلاش میں بھٹکتا ہو ایک ایسے ہی پیڑ کا شکار ہوگیا لیکن دم توڑنے سے پہلے خون سے لت پت جسم سنبھالے وہ آیا اور اس نے بتایا کہ جب ایک ایسے ہی درخت کی شاخوں نے اسے جکڑ لیا تو محسوس ہوا کہ شیر کی چنگل میں پھنس گیا ہے۔ اس گوشت خور کی لمبی کٹیلی شاخوں نے جگہ جگہ سے اس کے جسم سے گوشت کے ٹکڑے نوچ لیے تھے۔
ایسے ہی پیڑ تمانیہ کے سمندری کناروں پر بسے جنگلات میں بھی ہیں۔ اگر کوئی اس پیڑ کے قریب سے بھی گزر جائے تو وہ جھپٹ کر دبوچ لیتا ہے۔ اس سے بچ نکلنا ہاتھی جیسے قوی ہیکل جانور کے لیے بھی نا ممکن ہے۔ یہ پودے کچھ ہی دیر میں شکار کے جسم سے گوشت نوچ لیتے ہیں۔
ارجنٹائن کے ریڈ انڈین قبائلی طبقوں نے ایک پیڑ کا پتہ لگایا ہے۔ انہوں نے اس کا نام "موگا" رکھا ہے۔ اس پودے میں صبح سویرے مست کردینے والی خوشبو نکلتی ہے۔ اس پودے کے نیچے سے جو بھی مسافر گزرتا ہے وہ اس خوشبو سے بے ہوش ہوجاتا ہے۔ اور اس بے ہوشی کے عالم میں ہاتھی کے کان جیسی پتیاں شکار کوچوس ڈالتی ہیں۔
ایک اور پیڑ جو ویسٹ انڈیز میں پایا جاتا ہے جسے "موسیقار" کہتے ہیں۔ اس پیڑ کا شکار کرنے کا ڈھنگ نرالا ہے۔ دن بھر اس پیڑ سے سریلی جھنکار نکلتی ہے۔ غروب آفتاب کے ساتھ ہی یہ جھنکار سسکیوں اور رونے کی آوازوں میں بدل جاتی ہے۔ پاس سے گزرنے والا مسافر مجبور کی مدد کرنے کے خیال سے اس جھاڑ کے اندر گھسا بھی نہیں کہ جھنڈ کی شاخوں نے اسے دبوچ لیا۔ پتیوں کے چاقو کی دھار جیسے تیز کنارے پلک جھپکتے ہی مسافر کے ٹکڑے کر دیتے ہیں اور خون بہہ کر جڑوں کی پیاس بجھا دیتا ہے۔ پہلا شکار ختم ہوتے ہی پیڑ کا رونا پھر شروع ہوجاتا ہے۔
ایک اور خطرناک پیڑ جس کا نام "منچ نیل" ہے۔ یہ برازیل کے گھنے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ بہار کے موسم میں اس میں سرخ و حسین پھول کھلتے ہیں۔ ان سرخ پھولوں سے لگاتار زردرنگ کا برادہ جھڑتا رہتا ہے۔ یہ برادہ اتنا تیز اور زہریلا ہوتا ہے کہ جسم کے کسی حصے پر گرتے ہی وہ حصہ گل کر لعاب بن جاتا ہے ۔ یہ لعاب جڑوں میں جذب ہوکر اسے خوراک پہنچاتا ہے۔
یوپس ، ملایا ، سیلنزر کے سمندی ساحل پر ایک اور قسم کے خطرناک جھاڑ پائے جاتے ہیں ۔ اس جھاڑ کے ناشپاتی نما گول گول پھلوں سے ایک زہریلا رقیق لعاب ٹپکتا رہتا ہے جو چند ہی منٹوں میں بڑے سے بڑے جانور کا کام تمام کر دیتا ہے۔
جنگلی قبیلوں کے لوگ اپنے تیروں اور بھالوں کی نوکوں کو تیز کرنے کے لیے اس زہر کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے۔ مگر شائد ہی کچھ قسمت والے تھے جو زندہ لوٹ آئے۔ ان کا کہتا تھا کہ اس وحشی پیڑ کی جڑ کے پاس سڑے ہوئے انسانی گوشت اور ہڈیوں کا انبار لگا ہوا تھا اور پاس کے سمندری کناروں پر مردہ مچھلیوں کے بھی ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ ان آدم خور پودوں کا شکار کرنے کا ڈھنگ جو کچھ بھی ہو مگر انسانی گوشت اور چوسا گیا خون ان جڑوں کے ذریعہ پودے کے جسم میں بھی پہنچ جاتا ہے۔

عطاء اللہ خاں
 

عثمان

محفلین
اس حیرت انگیز تفصیل کے ساتھ کسی مستند معلوماتی لنک کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ کیونکہ حشرات الارض اور چھوٹے موٹے جانور کھانے والے پودے تو وجود رکھتے ہیں۔ لیکن آدم خور بلکہ شیر اور ہاتھی جیسے قوی الجثہ جانور ہڑپ کرنے والے پودے صرف افسانوں تک ہی محدود ہیں۔
اس تفصیل کی صحت پر مجھے شک ہے۔
 
Top