خواب اور پچھتاوے...عرفان صدیقی کا کالم

جوش

محفلین
خواب اور پچھتاوے....نقش خیال…عرفان صدیقی

کسی نظریئے، کسی سو چ، کسی آدرش کے ساتھ بندھے سیاسی کارکن مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ یہ سر پھرے سے لوگ تکلیفیں برداشت کرکے، محرومیوں کے چرکے کھاتے، جبر کی اذیتیں سہتے ہیں، جیلوں میں سڑتے ہیں، کچہریوں میں رلتے، لوگوں کے طعنے سنتے ہیں، رزق روزی کی مار کھاتے اور ریاستی تشدد کا تختہ مشق بنے رہتے ہیں لیکن محبتوں کا سودا نہیں کرتے، وفاؤں کی اجلی قبا پر داغ نہیں لگنے دیتے۔ خود پگھلتے رہتے ہیں لیکن جذبوں کی لو مدھم نہیں ہونے دیتے۔ ایسے کارکن ہی سیاسی جماعتوں کی اصل پونجی ہوتے ہیں۔ پارٹی کے چوباروں پہ بیٹھے جاگیر دار، سرمایہ دار اور زمیندار وزارتوں اور عہدوں کے جوڑ توڑ میں لگے رہتے اور شاداب چراگاہوں سے پیٹ بھرتے رہتے ہیں۔ جونہی سوکھا پڑنے لگے، وہ زنجیروفا توڑ کر ہرے بھرے منطقوں کی طرف نکل جاتے یا اپنے پر آسائش عافیت کدوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ سیاسی کارکن صرف اس چولہے کا ایندھن بنا رہتا ہے جس پہ رکھی دیگ میں انواع و اقسام کے کھانے پکتے اور بڑوں کے دسترخوانوں پر سجتے رہتے ہیں۔
پیپلز پارٹی اس حوالے سے امیر ترین جماعت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی طلسماتی شخصیت نے جانثاروں کی ایسی سپاہ تیار کی جو کسی دوسری جماعت کو نصیب نہ ہوئی۔ اپنے لیڈراور اپنی جماعت سے والہانہ عشق کرنے والے ان کا رکنوں نے ہر وہ قربانی دی جو لغت میں کسی بھی لفظ کی صورت میں موجود ہے۔ اپنے اسی وصف کی بدولت وہ جیالے کہلائے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) نے بھی ایک نیا جنم لیا اور اس کے دامن میں ایسے کارکنوں کی کمی نہیں جو اپنی جماعت اور اپنی قیادت سے والہانہ وابستگی رکھتے ہیں اور جو مشرف آمریت کے ظالمانہ دور میں بے پناہ مشکلات و مصائب کے باوجود منڈی کا مال بنے نہ وفا کی کلغی کو خم ہونے دیا۔ جماعت اسلامی بھی اپنی وفا شعار سپاہ پہ ناز کرسکتی ہے۔
کل شام جب مجھے شاہ کوٹ سے اپنے دوست، شوکت علی شوکت سموسہ فروش کا فون آیا اور اس نے کہا۔ ”میں نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی ہے۔“ تو میں سکتے میں آگیا۔ مجھے یقین نہ آیا کہ پیپلز پارٹی کے مخصوص سانچے میں ڈھلا، بھٹو کی محبت کے شیرے میں لت پت، بے نظیر بھٹو کی عقیدت سے سرشار اور پارٹی کیلئے جینے مرنے والا طرحدار سیاسی کارکن یکایک پارٹی چھوڑ سکتا ہے۔ میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ شاید وہ مذاق کر رہا ہے۔ لیکن اسکے لہجے میں شکست خواب کا کرب بہت کچھ کہہ رہا تھا۔
غم فراق بھی ہے اور سکون قلب بھی ہے
جدا ہوا ہے کوئی جیسے عمر بھر کے لئے
شوکت پیپلز پارٹی کا دیوانہ ہے اور میری سوچ ذرا مختلف ہے۔ اسکے باوجود مجھے وہ بہت اچھا لگتا ہے۔ کئی سال پہلے اس نے مجھے فون کرکے بتایا کہ وہ پیپلز پارٹی کا کارکن ہے اور میرے کالم شوق سے پڑھتا ہے۔ پھر وہ گاہے گاہے فون کرتا رہا۔ وہ نہ جانے کیوں مجھے ”پیر و مرشد“ کہہ کر پکارتا ہے اس نے مجھے اپنے بارے میں بہت کچھ بتایا۔ یہ کہ وہ دونوں ٹانگوں سے معذور ہے اور چل پھر نہیں سکتا۔ شاہ کوٹ کے بازار میں لاجواب سموسہ سینٹر“ کے نام سے کاروبار چلا رکھا ہے جس سے گزر اوقات ہوتی ہے۔ ایک بار جب اسنے بڑی چاہت کے ساتھ ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو میں نے کہا … ”میں خو د تمہارے پاس آؤنگا اور سموسے کھاؤں گا۔“اس نے دو تین بار مجھے وعدہ یاد دلایا۔ ایک دن میں کسی تقریب میں شرکت کیلئے فیصل آباد گیا تو شفیق کاشف کو ہمراہ لے کر شاہ کوٹ جاپہنچا۔ شوکت سے لمبی ملاقات ہوئی۔ ہم سب نے اس کے ریستوران میں بیٹھ کر سموسے کھائے جس کے سارے در و دیوار بھٹو اور بینظیر کی تصویروں سے آراستہ تھے۔ میں اس کے بعد بھی دو تین بار شاہ کوٹ صرف شوکت سے ملنے گیا۔ اسنے دن رات محنت کرکے چھوٹا سا گھر بھی بنا لیا ہے یہ گھر بھی بھٹو اور بے نظیر کی رنگین تصاویر سے مزین ہے۔
پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد، ابھی اس نے چلنا سیکھا ہی تھا کہ اسے پولیو نے آلیا۔اوراسکی دونوں ٹانگیں مفلوج ہوگئیں۔ اس کی والدہ قریباً انہی دنوں فوت ہوگئیں۔ مشقتوں بھری زندگی نے اسے بچپن میں ہی بھٹو کا شیدائی بنادیا۔ ہوش سنبھالا تو وہ درزی کا کام کرنے لگا۔ پیپلز پارٹی، نو عمر ی کے عشق کی طرح اس کے دل میں ہلچل مچاتی رہی۔1986 میں محترمہ بے نظیر بھٹو طویل جلا وطنی کے بعد واپس آئیں تو شوکت معذوری کے باوجود کسی نہ کسی طرح استقبال کرنے لاہور پہنچ گیا۔ کئی گھٹنے وہ محترمہ کے قافلے میں شریک رہا۔ 1988ء میں وہ باضابطہ طور پر پیپلز پارٹی کا رکن بن گیا۔ پہلے وہ شاہ کوٹ وارڈ نمبر2 کا سیکریٹری، پھر شاہ کوٹ کا جنرل سیکریٹری پھر تحصیل صفدر آباد کا نائب صدر بن گیا۔ شاہ کوٹ پیپلز پارٹی، شوکت علی شوکت کے نام سے جانی پہچانی جانے لگی جس طرح کبھی پیپلز پارٹی راولپنڈی قاضی سلطان محمود کے نام سے جانی جاتی تھی۔ 1990ء میں محترمہ نے اسے تین پہیوں والا ایک موٹر سائیکل دیا۔ اس موٹر سائیکل کو وہ پی پی پی کے جھنڈوں اور تصویری سٹکرز سے سجائے رکھتا تھا۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کی تحریک میں وہ نمایاں رہا۔ مشرف کے خلاف کوئی جلسہ کوئی جلوس، کوئی مظاہرہ اسکے جنوں سے خالی نہ تھا۔
کچھ ہی دن پہلے اس نے مجھے کہا تھا کہ میں جماعت کی کارکردگی سے سخت مایوس ہوں۔ اپنے آپ کو بہت سمجھاتا ہوں لیکن دل مطمئن نہیں ہو رہا۔ سونے لگتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بی بی کی تصویر مجھ سے کچھ کہہ رہی ہے ”نیند اڑ جاتی ہے۔ بہت پریشان ہوں۔ لیکن کیا کروں پارٹی تو ماں کی طرح ہوتی ہے…“ رات فون پر بات کرتے ہوئے وہ پھٹ پڑا۔ …”میں نے بڑا صبر کیا۔ اپنے آپ کو بہت سمجھایا بہت تسلیاں دیں۔ بار بار اپنی ماں کے چہرے کی طرف دیکھتا تھا لیکن وہ میری ماں نہیں، کوئی اور تھی۔ اب اس کی انگلی پکڑ کر چلنے سے مجھے ڈر لگنے لگا ہے۔ جانے کہاں لے جائے گی۔ کس کے حوالے کردے گی۔ “ پھر اس کی آواز بھرا گئی اور اس نے فون بند کردیا۔ آج، کالم لکھنے سے ذرا پہلے، میں نے کئی بار رابطے کی کوشش کی لیکن اس کا فون مسلسل بند ہے۔
جب وہ پارٹی چھوڑنے کا ’اعلان‘ کررہا تھا تو میں نے پوچھا ”کیا یہ تمہارا حتمی فیصلہ ہے؟ وہ بولا۔ ”جی پیر و مرشد۔یہ میرا حتمی فیصلہ ہے۔ فیصلے اور وعدے توڑنے کا کام لیڈر کرتے ہیں۔ مجھ جیسے غریب کارکن نہیں۔ لیکن ہاں! میں نے بھٹو کی پارٹی نہیں چھوڑی۔ میں ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کے جوان ہونیکا انتظار کرونگا۔“
شوکت علی شوکت نے ربع صدی پیپلز پارٹی کی آغوش میں گزار دی۔ وہ بھٹو کے دونوں بیٹوں کے قتل کا زخم سہہ گیا۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا صدمہ بھی برداشت کرگیا لیکن اس کے کندھے گزشتہ نو ماہ کا بوجھ نہ اٹھا سکے۔ وہ عین ان دنوں پارٹی سے دور ہوگیا جب بارہ برس بعد اسے حکمرانی ملی تھی اور سوکھی کھیتیاں ہری ہونے لگی تھیں۔ معلوم نہیں کہ آج کی پیپلز پارٹی کے کرتوں دھرتوں کو اندازہ ہے یا نہیں کہ جماعتوں کی طاقت بڑے بڑے عہدوں پر قابض حریصوں سے نہیں گیلی لکڑی کی طرح سلگتے رہنے والے کارکنوں سے ہوتی ہے۔
میں فرصت ملتے ہی شاہ کوٹ جانے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ اپنے دوست سے تعزیت کرسکوں۔ اپنی ماں کی موت کا لمحہ اسے یاد نہیں لیکن ممتا سے محرومی کا تازہ زخم جانے کب بھرے گا۔ جانے اس کی آنکھوں میں اب کیسی ویرانیاں ہوں گی؟
تو کیا اے قاسم اشیاء، یہی آنکھوں کی قسمت ہے
اگر خوابوں سے خالی ہوں تو پچھتاووں سے بھر جائیں
 
Top