حسان خان
لائبریرین
نہاں ہونے لگے آثارِ منزل جب نگاہوں سے
تو خضرِ راہ نے بڑھ کر غبارِ راہ کو چھانٹا
وہ خضرِ راہ تھا جو مشکلاتِ راہ سے واقف
ہٹائے جس نے سنگِ راہ، خارِ راہ کو چھانٹا
وہ خضرِ راہ، میرِ کارواں، وہ قائدِ منزل
ستم کی آندھیوں میں کارواں چلتا رہا جس کا
چلا ہر کاروانی جس کی نظروں کے اشارے پر
ز راہِ صدق حکمِ ضوفشاں چلتا رہا جس کا
وہ خضرِ راہ جس نے رہزنوں کو بے خطر ٹوکا
جسے منظور تھی ہر حال میں منزل کی آزادی
وہ خضرِ راہ، تھا جس کی نظر کا مرکزِ اول
وہ خطہ جس میں حاصل ہو خیال و دل کی آزادی
وہ خضرِ راہ، ہر راہی کے دل میں جس کی منزل تھی
جو تھا ہر کاروانی کی نگاہوں میں جمال آرا
وہ خضرِ راہ جس کی شبنمی آنکھوں کے آنسو تھے
کبھی انوار کی بارش کبھی طوفان کا دھارا
وہ خضرِ راہ جس کو ہر قدم پر تھا غمِ منزل
تجلی ریز، ضو افگن، چراغِ راہ کی صورت
وہ خضرِ راہ جس کا ہر سخن دل سے نکلتا تھا
شرر پیکر، سراپا سوز، دردِ آہ کی صورت
وہ خضرِ راہ آخرکار جس کو مل گئی منزل
تجلی خیز و جلوہ ریز 'ارضِ پاک' کی صورت
ضیائیں جس کی پھیلیں گی ابھی اقصائے عالم میں
ہے رشکِ ماہ و رشکِ مہر جس کی خاک کی صورت
وہ خضرِ راہ، جس کو 'قائدِ اعظم' کہا سب نے
قیادت جس کی چمکی مہرِ عالم تاب کی صورت
وہ تڑپا قبلِ منزل بھی، وہ تڑپا بعدِ منزل بھی
رہا جو مضطرب ہر حال میں سیماب کی صورت
(سیماب اکبرآبادی)
۱۹۴۸ء
تو خضرِ راہ نے بڑھ کر غبارِ راہ کو چھانٹا
وہ خضرِ راہ تھا جو مشکلاتِ راہ سے واقف
ہٹائے جس نے سنگِ راہ، خارِ راہ کو چھانٹا
وہ خضرِ راہ، میرِ کارواں، وہ قائدِ منزل
ستم کی آندھیوں میں کارواں چلتا رہا جس کا
چلا ہر کاروانی جس کی نظروں کے اشارے پر
ز راہِ صدق حکمِ ضوفشاں چلتا رہا جس کا
وہ خضرِ راہ جس نے رہزنوں کو بے خطر ٹوکا
جسے منظور تھی ہر حال میں منزل کی آزادی
وہ خضرِ راہ، تھا جس کی نظر کا مرکزِ اول
وہ خطہ جس میں حاصل ہو خیال و دل کی آزادی
وہ خضرِ راہ، ہر راہی کے دل میں جس کی منزل تھی
جو تھا ہر کاروانی کی نگاہوں میں جمال آرا
وہ خضرِ راہ جس کی شبنمی آنکھوں کے آنسو تھے
کبھی انوار کی بارش کبھی طوفان کا دھارا
وہ خضرِ راہ جس کو ہر قدم پر تھا غمِ منزل
تجلی ریز، ضو افگن، چراغِ راہ کی صورت
وہ خضرِ راہ جس کا ہر سخن دل سے نکلتا تھا
شرر پیکر، سراپا سوز، دردِ آہ کی صورت
وہ خضرِ راہ آخرکار جس کو مل گئی منزل
تجلی خیز و جلوہ ریز 'ارضِ پاک' کی صورت
ضیائیں جس کی پھیلیں گی ابھی اقصائے عالم میں
ہے رشکِ ماہ و رشکِ مہر جس کی خاک کی صورت
وہ خضرِ راہ، جس کو 'قائدِ اعظم' کہا سب نے
قیادت جس کی چمکی مہرِ عالم تاب کی صورت
وہ تڑپا قبلِ منزل بھی، وہ تڑپا بعدِ منزل بھی
رہا جو مضطرب ہر حال میں سیماب کی صورت
(سیماب اکبرآبادی)
۱۹۴۸ء