جوش حی علیٰ خیر العمل - جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
آ، ہمنشیں، نمازِ صبوحی ادا کریں
خوشبوئے عود میں درِ میخانہ وا کریں
ہاں اٹھ کہ مُہرِ شیشۂ گُل رنگ توڑ کر
انسانیت کو دامِ خرد سے رہا کریں
باقی جو بچ رہا ہے کچھ ایمان، خیر سے
اُس کو بھی آج پائے صنم پر فدا کریں
پودے مچل رہے ہیں، گھٹائیں ہیں پُرخروش
آ، ہم بھی آج حقِّ جوانی ادا کریں
بہکیں قدم قدم پہ، چلیں جھوم جھوم کر
اتنا تو پاسِ خاطرِ موجِ صبا کریں
ساغر میں غرق کر کے لباسِ فریب کو
پیرانِ خرقہ پوش کے حق میں دعا کریں
ہر شے ہے پائے لیلئ مستی پہ سجدہ ریز
اور ہم نمازِ جام و صراحی قضا کریں!
برسات کی گھٹاؤں سے برسیں گلابیاں
اور ہم وضو سے شست و شوئے دست و پا کریں
گلشن کا ذرہ ذرہ پیے بے دھڑک شراب
اور ہم خیالِ پرسشِ روزِ جزا کریں
بہکے ہوا، رواں ہو فضا، مست ہو گھٹا
اور ہم خرد کو راہبر و رہنما کریں!
گردوں پیالہ کَش ہے تو گیتی قرابہ نوش
ہم اور اِس بہار میں خوفِ خدا کریں
پی پی کے، جھوم جھوم کے، گا گا کے مثلِ جوش
آ، دھوم سے عبادتِ آب و ہوا کریں
(جوش ملیح آبادی)
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب
جوش جی نے " بارش و شراب میں کیا خوب قدر مشترک تلاش کی ۔۔
وہ بھی عرق یہ بھی عرق ۔۔ دونوں " آتش " کے محتاج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
واہ بہت خوب۔ یہ میری پسندیدہ ترین نظموں میں سے ایک۔ یہ بات درست ہے کہ جوشؔ کافر باللہ اور مومن بالانسان تھے۔ لیکن اس میں بھی انہوں نے ایمان کا اعلیٰ ترین مرتبہ حاصل فرمایا۔
اور بقول میرے:
ہم خیر سے کافر باللہ ہیں، اور مومن بالانسان ہیں پر
کہتے ہیں ہمیں سب منکرِ دیں، نا فرمانِ ارباب ہیں ہم۔۔۔ (ارباب۔ رب کی جمع)
 
Top