حکیم الامت علامہ اقبال۔ عاشق رسول سعید صدیقی

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طٰحٰہ اقبال کے رگ و پے میں جس انداز سے عشق رسول سرائیت کر گیا تھا اس کا اظہار ان کے مندرجہ بالا اشعار سے آشکارہ ہے۔ روضہ اطہر پر حاضری کی تڑپ آنکھوں سے سیلاب اشک جاری تھا احباب نے مشورہ دیا آنکھوں کا آپریشن ہونے کے بعد آئندہ سال حج بیت اللہ کیلئے جائیں تو مواجہ شریف پر حاضری دے کر درود و سلام کا نذرانہ پیش کردیجئے گا ، زار قطار روتے ہوئے فرمایا کیا اندھے حج نہیں کرتے۔ عشق رسول میں ڈوبے ہوئے سرشار اقبال کے قلب حزیں کی کیفیت امیر خسرو کی زبان سے یوں ادا ہوتی ہے۔ محمد کے سوا حسن ازل کا کون ہے محرم کہاں تک راز میں رہتا شہید ناز کا عالم ہوئی انا فتحنا کی تجلی جس گھڑی رقصاں عجب پر نور منظر تھا عجب بزم شہہ خوباں بنا ہے درد ہی سے دل چراغ قدسیاں خسرو عجب پر نور تھی یہ مجلس روحانیاں خسرو کہاں یہ بزم عالی اور کہاں پروانہ ساں خسرو خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم نمی دانم چہ منزل بود شب جائیکہ من بودم اقبال کی شاعری میں جگہ جگہ عشق و مستی کی کیفیت آشکارا ملے گی۔ صاحبان حکمت و علم نے اقبال کی شاعری کو قرآں سے مملو قرار دیا ہے۔ شارحین نے فلسفہ اسلام کا عظیم محقق دانائی کا سرچشمہ بتایا ہے۔ مورخین نے ملت اسلامیہ کا زبردست مصلح اور ایک انقلاب آفریں تحریک سے معنون کیا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال پر اقبال کی فکر انگیز تحقیق کو روشنی کا مینار تسلیم کیا ہے لیکن اقبال کے دل میں اس کی روح کے اندر جو ایک کسک پائی جاتی تھی وہ تو اپنے آقائے نامدار محمد ﷺ کی محبت عشق تجلی کا نور معرفت اشعار کی شکل میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی یست بیشک یہ کسک یہ فیضان حضرت مولانا جلال الدین رومی پیر مرشد کے تصرف کا نتیجہ ہے یہ ان کے جمال، ان کی رفاقت کا روحانی اثر تھا۔ بقول شیخ مصلح الدین سعدی جمال ہم نشیں درمن اثر کرد وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم (میرے اندر تو میرے ہم نشیں کا جمال سرائیت کر گیا ہے ورنہ بنیادی طور پر میں خاک کی وہی ڈلی ہوں) ایک اور پہلو بھی بڑا اہم ہے انگریزی کا مقولہ ہے A man is known by the company he keeps یوں سمجھئے کہ کسی انسان کی عظمت کا اندازہ اس کے ہمعصروں سے بھی لگایا جاتا ہے۔ اقبال کے ہمعصروں میں مولانا شبلی نعمانی جیسے عالم فاضل موجود تھے۔ شبلی نعمانی کا ذکر اکثر اقبال کے مقالات میں ملتا ہے مولانا سید سلیمان ندوی اپنے وقت کے کامل ولی اللہ تھے۔ سیرت النبی کی 4جلدیں آپ نے اپنے مرشد استاد حضرت مولانا شبلی نعمانی کے انتقال کے بعد مکمل کیں۔ سیرت النبی پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی کی سیرہ النبی سب سے اعلیٰ اولی درجہ رکھتی ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے سیرة لکھتے وقت یہ شعر لکھا فرشتوں میں یہ چرچا تھا کہ حال سرور عالم دبیر چرخ لکھتا یا کہ خود روح الامیں لکھتے صدا یہ بارگاہ عالم فردوس سے آئی کہ ہے یہ اور ہی کچھ چیز لکھتے تو ہمیں لکھتے علامہ اقبال فرماتے ہیں الفاروق اردو ادب میں ایک ایسی کتاب ہے کہ اگر اس کے بعد شبلی کچھ بھی نہ لکھتے تو ان کا نام ہمیشہ زندہ رہتا۔ صاحبان علم و فضل کا تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علامہ اقبال اسی دبستان چمن کے ایک اہم رکن تھے۔ مولانا سید سلیمان ندوی کے خطبات مدراس کو پڑھنے کے بعد فلسفہ اسلام پر اقبال کے خطبات کا مطالعہ کیجئے تو ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است کے ساتھ گلستان کی مہک انسان کے قلب و ذہن کو منور کردیتی ہے۔ سید سلیمان ندوی افغانستان کے دورے پر گئے اقبال ان کے ساتھ تھے۔ سرسید احمد خاں نے 1857کی جنگ آزادی کے بعد جس مزارع کی بنیاد رکھی تھی جو دو قومی نظریہ کی بنیاد بنا۔ جو بنیاد تھی 1906میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کی اور جس کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں 14/اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک عظیم اسلامی مملکت کی حیثیت سے نمودار ہوا۔ علی گڑھ تحریک کی آبیاری مختلف ادوار میں اکابرین کے ہاتھوں ہوتی رہی تانکہ قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں جدوجہد آزادی اپنے منزل مقصود کو پہنچی۔ 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ الہ آباد میں صدارتی خطبے میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کی آزاد، خود مختار ریاست کی تجویز پیش کی۔ بڑے کمال کی بات یہ ہے کہ ہمارے اکابرین نے اعلیٰ تعلیم یورپ میں جاکر حاصل کی فطرت کا تقاضا ہے انسان ماحول سے اس کی تہذیب کا اثر قبول کرتا ہے لیکن ہمارے اکابرین کی تربیت کیونکہ بنیادی طور پر سقا ماحول میں ہوئی تھی انہی حضرات نے یورپ کے علم سے استفادہ تو کیا لیکن اپنی اقدار، اپنی تہذیب اور قومی اور ملّی جذبے سے سرشار واپس آکر ایک اسلامی مملکت کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوئے۔ مولانا محمد علی جوہر آکسفورڈ سے فارغ التحصیل تھے۔ آزادی وطن کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے ہر دولی جیل سے رہا ہو کر 20 دسمبر 1919امرتسر میں مسلم لیگ کے جلسے میں شریک ہونے براہ راست پہنچے۔ 1919کا سال بڑا ہنگامہ خیز گزرا، جلیاں والے باغ کا واقعہ ہوکر چکا تھا جہاں جنرل ڈائر نے کئی ہزار آدمیوں کو گولی چلواکر ہلاک کردیا تھا جلسے کی صدارت مسیح الملک حکیم اجمل خاں نے فرمائی۔ ہزاروں کا مجمع تھا کارروائی ابھی شروع ہوئی تھی کہ علامہ اقبال اپنے احباب نواب ذوالفقار علی خاں اور میاں عبدالعزیز کے ہمراہ جلسہ گاہ تشریف لائے علامہ کے آنے سے جلسے کا رنگ دوبالا ہوگیا۔ علامہ نے اس موقع پر مولانا محمد علی جوہر کی شان میں مندرجہ ذیل اشعار پڑھے۔ تالیوں سے جلسہ گونج اٹھا ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند قطرہ نسیاں ہے زندان صدف سے ارجمند مشک ازفر چیز کیا ہے اک لہو کی بوند ہے مشک بن جاتی ہے ہو کے نافہ آہو میں بند ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت مگر کم ہیں وہ طائر کہ ہیں دام قفس سے بہرہ مند شہپر زاغ و زغن در قید وبند صید نیست ایں سعادت قسمت شہباز و شاہیں کردہ اند اس سے یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اقبال محرم اخلاق کا سب سے بڑا معلم ہے، اقبال کا کلام دلوں کو گرمانے کے لئے آب حیات کا کام کرتا ہے، دلوں میں ایک برقی رو جو رگ و پے کو مشتعل کردے عزت نفس خود داری کا سبق دیتا ہے۔ شجاعت تہور اور سرفروشی کا جذبہ ابھارتا ہے ۔ فطرت انسانی کے بلند اور شریفانہ جذبات کا ترجمان ہے آشوب عالم میں امید آرزو کا پیغامبر ہے اس کی روح ہمیشہ نشاط امید سے مخمور رہتی ہے وہ یاس غم کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ یاس کی تاریکی میں صبح امید کی جھلک محسوس ہوتی ہے۔ وہ دنیا کو خواب پریشاں نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ۔ الغرض اقبال کا وجود عالم فطرت کاآئینہ ہے جس میں ہر موثر منظر کا عکس آرائی ہوتی ہے۔ نہ تخت و تاج میں نے لشکر و سپاہ میں ہے جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لاالہ میں ہے مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا وہ مشت خاک ابھی آوارگان راہ میں ہے
بشکریہ روزنامہ جنگ


والسلام
جاویداقبال
 
Top