حکایاتِ گلستانِ سعد یؒ "بادشاہ اور قیدی"

الم

محفلین
image.png

کہتے ہیں، ایک بادشاہ کی عدالت میں کسی ملزم کو پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے مقدمہ سننے کے بعد اشارہ کیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔بادشاہ کے حکم پہ پیادے اسے قتل گاہ کی طرف لےچلے تو اس نے بادشاہ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔کسی شخص کے لئے یہ بڑی سے بڑی سزا یہی ہو سکتی ہے کہ اسے قتل کردیا جائے اور چونکہ اس شخص کو یہ سزا سنائی جا چکی تھی اس لئیے اس کے دل سے یہ خوف دور ہو گیا تھا کہ بادشاہ نازاض ہو کر درپے آزاد ہو گا۔
بادشاہ نے یہ دیکھا کہ قیدی کچھ کہ رہا تو اس نے اپنے وزیر سے پوچھا "یہ کیا کہ رہا ہے؟" بادشاہ کا وزیر بہت نیک دل تھا اس نے سوچا، اگر ٹھیک بات بتا دی جائے تو بادشاہ غصے سے دیوانہ ہو جوئے گا اور ہو سکتا ہے قتل کرانے سے پہلے قیدی کو اور عذاب میں مبتلا کرے۔اس نے جواب دیا "جناب یہ کہ رہا کہ اللہ پاک ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو غصے کو ضبط کر لیتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔"
وزیر کی بات سن کے بادشاہ مسکرا دیا اور اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو آزاد کر دیا جائے۔
بادشاہ کا ایک وزیر پہلے وزیر کو مخالف اور تنگ دل تھا وہ خیر خواہی جتانے کے انداز میں بولا "یہ بات ہرگز مناسب نہیں ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ اور زبان پہ لائیں اور سچ یہ ہے کہ قیدی حضور کی شان میں گستاخی کر ریا تھا۔غصہ ضبط کرنے اور بھلائی سے پیش آنے کی بات نہ کر رہا تھا۔"
وزیر کی بات سن کے نیک دل بادشاہ نے کہا"اے وزیر! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغص اور کینے پہ ہے ، تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے کہ اس سے ایک شخص کی جان بچ گئی۔یاد رکھ! اس سچ سے جس سے کوئی کوئی فساد پھیلتا ہو، ایسا جھوٹ بہتر ہے جس سے کوئی برائی دور ہونے کی امید ہو."
؎ وہ سچ جو فساد کا سبب ہو بہتر ہے نہ وہ زبان پہ آئے
اچھا ہے وہ کذب ایسے سچ سے جو آگ فساد کی بجھائے

حاسد وزیر بادشاہ کی یہ بات سن کر بہت شرمندہ ہوا۔بادشاہ نے قیدی کو آزاد کر دینے کا فیصلہ بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ بادشاہ ہمیشہ اپنے وزیروں کے فیصلے پہ عمل کرتے ہیں۔وزیروں کو فرض ہے کہ وہ ایسی کوئی بات نا نکالیں جس میں کوئی بھلائی نہ ہو۔اور اس نے مزید کہا: "یہ دنیاوی زندگی بہرحال ختم ہونے والی ہئ۔ کوئی بادشاہ ہو یا فقیر سب کا انجام موت ہے۔اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی شخص کی روح تخت پہ قبض کی جاتی یا فرشِ خاک پر"
وضاحت:
حضرت سعدیؒ کی یہ حکایت پڑھ کر سطحی سوچ رکھنے والے لوگ یہ نتیجہ اخذ کر لیتے کہ مصلحت کے لئیے جھوٹ بولنا جائز ہے۔لیکن یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں۔حکایت کی اصل روح یہ ہے کہ خلقِ خدا کی بھلائی کا جذبہ انسان کے تمام جذبوں پر غالب رہنا چاہیئےاور جب یہ اعلیٰ و ارفع مقصد سامنے ہو تو مصلحت کے مطابق رویہ اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔جیسے جراح کو یہ اجازت ہوتی کہ (علاج کے لئیے) فاسد مواد خارج کرنے کے لئیے اپنا نشتر استعمال کرے۔ کسی انسان کہ جسم کو نشتر سے کاٹنا بذاتِ خود اچھی بات ہر گز نہیں لیکن جب جراح یہ عمل کرتا تو اسے اسکی قابلیت سمجھا جاتا۔
 
Top