حُکمران بدلیں یا نظام بدلیں؟

حُکمران بدلیں یا نظام بدلیں؟

وہ حلقے جوکبھی بیٹھے بیٹھے موجودہ حکومت کے جانے کی تاریخیں متعین کرتے نہیں تھکتے تھے۔ اُن کےشوراور ان تاریخوں سے حکومت تو کہیں نہیں گئی ۔ اُن کی آوزیں اورحکومت کے حوالے سے دی جانے والی تاریخیں ازخود دم توڑ گئیں۔ اب ان حلقوں کے سروں پر اس حکومت کے جانے سے زیادہ واپس آنے کا خوف سوار ہوُچکا ہے!
گو کہ سیاسی میدان میں چلنے والی گہماگہمی کے رنگ ابھی بھی معدوم نہیں ہوسکے ہیں۔کوئی ایسا دن نہیں جاتا کہ جب کوئی بات، کوئی بیان یا کوئی الزام اخبارات کی زینت نہ بنتاہو
اور اسی کے ساتھ میڈیا بھی حرکت میں برکت کے مقولے پر عمل پیرا ہوکر اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیتا ہے!
اورمختلیف چینلز پر بیٹھے ہوئے ٹی وی اینکرز ٹی وی اسٹوڈیوز میں ہی پارلیمنٹ کا سا ماحول بنادیتے ہیں۔۔۔ اُن کی دھواں دھار بحث اور سیاسی جماعتوں کے آئے ہوئے نمائندوں کی چینخ پُکار۔۔۔ ایکدوسرے پر لگائے جانے والے الزامات اور حالات بہتر کردینے کے وہ دعوے جن کو سُن کر ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوئے بیچارے عام ناظرین اپنی پوری توجہ اور نگاہیں ان پروگرام پر مرکوز رکھے ہوئے کسی وقت یہ سوچ رہے ہوتے تھے کہ بس یہ پروگرام ختم ہوا نہیں کے ان کے مسلئے بھی حل ہوجائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر اب لوگوں کو حُکمرانوں کی باتوں یا دعووں کا یقیں ہویا نہ ہو۔۔۔۔ اخبارات کے صفحہٴ اول پر لگی کوئی خبر اُنھیں متوجہ کرسکے یا نہ کرسکے ۔ انھیں اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ آنے والا ہر دن اُن کے مسائل میں اضافے کا تو باعث ہوسکتا ہے وہ مسائل ختم نہیں ہوسکتے!

یہ وہ رویہ ہے جوتیزی سے بڑھتی ہوئی نااُمیدی کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔

گُذشتہ ساڑھے تین سال کا عرصہ ہمارے حُکمرانوں کے لئیے جتنا کامیاب رہا ہے ( مُفاہمتی اور مفاداتی طور پر) عوامی لحاظ سے یہ عرصہ پاکستانی تاریخ کی کسی بھی دوسری حکومت کے مُقابلے میں ایک عام شخص کے لئیے کٹھن ترین عرصہ نہ صرف رہا ہے بلکہ ابھی تک چل رہا ہے
کسی بُرے وقت یا خواب کی مانند!
اپنی تمام تر طاقت توجہ اور اختیارات اپنی حُکومت کو کامیاب بنانے کے چکر میں یہ حکومت غربت، مہنگائی، بدامنی اور بے روزگاری جیسے تمام محاذ پر ناکام ہوگئی۔

اب اگر یہ بات کریں کہ کس پر یقین کریں کس پر نہ کریں تو یہ بھی بیوقوفی ہے کیونکہ ہماری مُلک کی دیگر بدقسمتی کی طرح یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ہمارے سیاسی اُفق پر گنتی کے چہرے ہیں جن میں سے ایک کے آنے کی اُمید دوسرے کے جانے سے جُڑی ہوتی ہے اور اگر حُکمران جماعت سیاسی پینتروں اور داوٴ پیچ میں موجودہ حُکومت کی طرح ماہر ہو تو پہلے سے کسی موقعے کا انتطار کرتی ہوئی جماعت کو اپنی باری مزید خطرات میں گھری ہوئی نظر آتی ہے اور مُلک کی سیاسی فضاٴ بالکل ایسی ہوجاتی ہے جیسی آجکل ہمارے یہاں بنی ہوئی ہے۔




o توجہ طلب امریہ ہے کہ اب ہمارے حُکمرانوں کو اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہئیے جن مسائل سےآج ہم نبرد آزما ہیں انھیں حُکمران طبقہ کی خامیوں اور کمزور یوں سے تو تعبیر کیا جاسکتا ہے لیکن انھیں قُدرتی آفات میں ہر گزشُمار نہیں کیا جاسکتا جن کا کوئی حل موجود نہ ہو
لہذا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ حُکومت کے لئیے ان تمام تر مسائل سے نگاہ چُراناخواہ کتناہی آسان کیوں نہ ہو ان مسائل کو نظر انداز کرنا اُتنا ہی مشُکل ترین ثابت ہوگا۔


’ندیم جاوید عُثمانی‘
 

محمد مسلم

محفلین
اصل بات یہ ہے کہ جیسے کپڑے پہننے کے بعد بوسیدہ ہو جاتے ہیں لیکن بعض اوقات پیوند لگا کر کچھ عرصہ ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، لیکن ایک وہ وقت بھی آتا ہے کہ کپڑا اس قدر بوسیدہ ہو جاتا ہے کہ پیوند لگنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ ایسی حالت میں کپڑا نیا خریدنا ہی پڑتا ہے۔ یہی حال نظام کا بھی ہے جس قدر اچھا نظام بھی آپ بنا لیں وہ ایک وقت آئے گا بوسیدہ ہو جائے گا، لیکن کچھ اصلاحی اقدامات سے قابلِ عمل رہے گا، لیکن پھر بگاڑ جب حد سے گزر جائے تو پھر اس کی اصلاح کی کوئی صورت نہیں رہتی، پھر اس کو بہر حال بدلنا ہی پڑتا ہے۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ انگریزوں نے یہاں جو نظام قائم کیا تھا وہ اپنی اچھائیاں دکھانے کے بعد بوسیدہ ہو چکا تھا جب ہمیں آزادی ملی اور ہم نے ایک سنگین غلطی یہ کی کہ ہم نے اسی بوسیدہ نظام کو برقرار رکھا حالانکہ اس قدر بڑے انقلاب کے بعد نیا نظام مرتب کر لیتے تو بہتر تھا۔ اب یہ نظام بوسیدہ تر ہو چکا ہے، اب اس کو بدلنا نا گزیر ہو چکا ہے، اگر باہر سے کوئی نظام اس سے بہتر آیا تو وہ اس کی جگہ لے گا، ورنہ اندر سے تبدیلی اٹھے گی اور نظام بہر حال تبدیل ہو گا کیونکہ نظام کے بغیر ملک قائم نہیں رہ سکتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کونسا نظام کامیاب ہو گا، پاکستان کے حالات کے تناظر میں دیکھیں تو یہاں پر بہر حال اسلامی نظام کا آنا مقدر ہو چکا ہے، کیونکہ وہی ایک نظام ہے جس پر سب کا اتفاق ہو سکتا ہے، کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ علماء کے اختلافات اس کو ناممکن بنا دیں گے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ علماء کے اختلاف بھی اسی دورِ غلامی کی پیداوار ہیں یہ اختلافات جس فرقے کے علماء غالب آئیں گے ان کے ساتھ بالآخر ہم آہنگ ہو جائیں گے کیونکہ علماء کا روزگار عوام کے ساتھ وابستہ ہے اور عوام مقتدر قوتوں کے تابع ہوتے ہیں۔ (الناس علی دین ملوکہم) کہ لوگ بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں۔
 
Top