حُسن ہے تو شباب لازم ہے غزل نمبر 79 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
حُسن ہے تو شباب لازم ہے
عشق ہے تو شراب لازم ہے


صحبتِ عشق مل گئی ہے اب
دل کا ہونا خراب لازم ہے


عشق والوں کی داستاں سن کر
آنکھ میں آئے آب لازم ہے

حُسن سے ہے کیا سوالِ عشق
اُس پہ دینا جواب لازم ہے

یہ محبت ہے یار دن بہ دن
ہو فزوں اضطراب لازم ہے

عشق میں قیس قیس سے صحرا
صحرا ہے تو سراب لازم ہے

دل یہ عاشق فدا نہ ہوجائے
حُسن تجھ پر حجاب لازم ہے

پُھوٹ پڑ جائے نہ دِوانوں میں
ان کے رُخ پر نقاب لازم ہے

قیس و فرہاد گر نہیں بننا
عشق سے اجتناب لازم ہے

نظر لگ جائے نہ پتنگوں کی
چاند تجھ پر سحاب لازم ہے

راہِ حق و دروغ،دونوں میں
ایک کا انتخاب لازم ہے


تھک چکے ہیں خراب لوگوں سے
یورشِ انقلاب لازم ہے


اس مشینوں کے دور میں بھی کبھی
پڑھنی چاہئے کتاب لازم ہے

عم بھر خار چُنے ہیں ہم نے
ہاتھ آئے اک گُلاب لازم ہے

ظالموں سے لعین لوگوں سے
اے خدایا حساب لازم ہے

پیچھے ہٹنے نہیں دیتا ہے خیال
آگے بڑھنے کو خواب لازم ہے

ہے دعا ساتھ میرے مرشد کی
زیست ہو کامیاب لازم ہے

ظُلم حد سے اگر بڑھ جائے تو
اس کا پھر سدِباب لازم ہے

کام اچھے کرو یقیں رکھو
اے میرے دل ثواب لازم ہے

جیسے اعمال کئے ہیں ہم نے
اس پر آنا عذاب لازم ہے

یہ غزل ہے امین شارؔق کی
داد دینا جناب لازم ہے
 
Top