حشر برپا ہے مرے جامہء عریانی سے - فاروق درویش

حشر برپا ہے مرے جامہء عریانی سے
داغ جاتا ہی نہیں عشق کا پیشانی سے

کعبہء دل میں ہے بت خانہ بھی ، میخانہ بھی
خوف آتا ہے مجھے اپنی مسلمانی سے

تیری آنکھیں ہیں مئے مست کے ساغر لیکن
سارے طوفاں ہیں مرے خون کی جولانی سے

آئینہ خانہء ہستی میں ہر اک سمت ہے تو
چاند اترتے ہیں مرے عالم ِ عرفانی سے

آگ پانی کا تماشہ ہے ، محبت کیا ہے
دل سلگتا ہے دھواں اٹھتا ہے ویرانی سے

عشق زادہ ہوں مرے حال ِ فقیری پہ نہ جا
شاہ لرزاں ہیں مری بے سر و سامانی سے

سرد راتوں کی جنوں خیزی ہے آتش درویش
آگ دریا میں بھی لگ جاتی ہے طغیانی سے

فاروق درویش
 
واہ صاحب! کیا بات ہے استاد گرامی کی
عشق زادہ ہوں مرے حال ِ فقیری پہ نہ جا
شاہ لرزاں ہیں مری بے سر و سامانی سے
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top