ناعمہ عزیز
لائبریرین
با با آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی ؟شہر کا رخ بھی کرتے ہیں؟
میں نے آنکھیں موندے بظاہر تھکن سے چُور نظر آنے والے بابا سے پوچھا ۔
’’ ہماری کوئی ایک جگہ مقرر نہیں ہوتی ۔ اور ہمیں خؤد بھی یاد نہیں رہتا کل کہاں تھے ور آج کہاں ہیں‘‘
ان کی آنکھوں نے سرخ ڈوروں نے میرے اندر کچھ خوف سا جگا دیا۔
’’ ہم جاہ جاہ پھرتے ، نگر نگر گھومتے اور پھر چرسا بھر زمین کی چادر اوڑھے سو رہتے ہیں۔ سکون کہیں بھی نہیں ہوتا ۔ بس اپنے اندر ہوتا ہے۔ جس تک پہنچنے کے لئے اندر دھیان لگانا پڑتا ہے۔ یہ جو شخص مٹی کی چادر اوڑھے پڑا ہے نا ۔ برسوں پہلے ایک عام شخص تھا ۔ روٹی ، کپڑا، مکان کے چکر میں ذلیل و خوار ہونے والا شخص ۔ یہاں آیا تو اپنی پریشانیؤن کا حل سو چنے کو اسی پہاڑ پر بیٹھا۔ اور اسے ان کاحل مل گیا اس نے اپنے اندر دھیان لگایا ۔ اور فطرت کی گہرائی میں بھکرے سکون نے اسے اندر کے دھیان میں پکا کر دیا ۔ اور پھر اس نے اس دھیان کو ٹوٹنے نا دیا ۔۔۔۔۔ چھوڑ دیا بس کچھ بس یہیں کا ہو رہا ۔۔۔۔۔ اب تک یہیں ہے‘‘
لیکن کیا ، دنیا میں اپنی ذمہ داریوں سے یوں گھبرا کر ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کے نام کی مالا جپتے رہنا بہت آسان نہیں‘‘
’’کم فہم انسان ہے نا تو عشق کو نہیں جانتا ۔۔۔۔ عشق کی دیوانگی کو کیا سمجھے گا، عشق پہ کسی کا زور ہوتا تو دنیا میں کوئی دیوانہ نا ہوتا، تو عشق کو آسان سمجھتا ہے۔ ایک بھی منزل عبو کر کے دکھا تو تجھے جانوں۔ ہر منزل پہ انگنت کشٹ ہیں اور ساری بات نصیب کی ہے۔ کسی کے نصیب میں عشق ہے اور کسی کے نہیں ‘‘۔
میں نے آنکھیں موندے بظاہر تھکن سے چُور نظر آنے والے بابا سے پوچھا ۔
’’ ہماری کوئی ایک جگہ مقرر نہیں ہوتی ۔ اور ہمیں خؤد بھی یاد نہیں رہتا کل کہاں تھے ور آج کہاں ہیں‘‘
ان کی آنکھوں نے سرخ ڈوروں نے میرے اندر کچھ خوف سا جگا دیا۔
’’ ہم جاہ جاہ پھرتے ، نگر نگر گھومتے اور پھر چرسا بھر زمین کی چادر اوڑھے سو رہتے ہیں۔ سکون کہیں بھی نہیں ہوتا ۔ بس اپنے اندر ہوتا ہے۔ جس تک پہنچنے کے لئے اندر دھیان لگانا پڑتا ہے۔ یہ جو شخص مٹی کی چادر اوڑھے پڑا ہے نا ۔ برسوں پہلے ایک عام شخص تھا ۔ روٹی ، کپڑا، مکان کے چکر میں ذلیل و خوار ہونے والا شخص ۔ یہاں آیا تو اپنی پریشانیؤن کا حل سو چنے کو اسی پہاڑ پر بیٹھا۔ اور اسے ان کاحل مل گیا اس نے اپنے اندر دھیان لگایا ۔ اور فطرت کی گہرائی میں بھکرے سکون نے اسے اندر کے دھیان میں پکا کر دیا ۔ اور پھر اس نے اس دھیان کو ٹوٹنے نا دیا ۔۔۔۔۔ چھوڑ دیا بس کچھ بس یہیں کا ہو رہا ۔۔۔۔۔ اب تک یہیں ہے‘‘
لیکن کیا ، دنیا میں اپنی ذمہ داریوں سے یوں گھبرا کر ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کے نام کی مالا جپتے رہنا بہت آسان نہیں‘‘
’’کم فہم انسان ہے نا تو عشق کو نہیں جانتا ۔۔۔۔ عشق کی دیوانگی کو کیا سمجھے گا، عشق پہ کسی کا زور ہوتا تو دنیا میں کوئی دیوانہ نا ہوتا، تو عشق کو آسان سمجھتا ہے۔ ایک بھی منزل عبو کر کے دکھا تو تجھے جانوں۔ ہر منزل پہ انگنت کشٹ ہیں اور ساری بات نصیب کی ہے۔ کسی کے نصیب میں عشق ہے اور کسی کے نہیں ‘‘۔