افتخار عارف جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں
تم نے پوچھا توہوتا بتلا سکتاتھا میں

آسودہ رہنے کی خواہش مار گئی ورنہ
آگے اور بہت آگے تک جاسکتا تھا میں

کہیں کہیں سے کچھ مصرعے، ایک آدھ نظم، کچھ شعر
اس پونجی پہ کتنا شور مچا سکتا تھا میں

چھوٹی موٹی ایک لہر ہی تھی میرے اندر
ایک لہر سے کیا طوفان اٹھا سکتا تھا میں

جیسے سب لکھتے رہتے ہیں غزلیں، نظمیں، گیت
ویسے لکھ لکھ کے انبار لگا سکتا تھا میں
 
Top