جہیز، اصلاح ہو تو کیسے؟

کعنان

محفلین
جہیز، اصلاح ہو تو کیسے؟
اداریہ کالم، مسز جمشید خاکوانی…. آئینہ
August 28, 2016

ایک معروف میگزین میں جہیز سے متعلق مضمون چھپا جس میں تجاویز دی گئی تھیں کہ ہر شہر، قصبے، محلے میں ایسی تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی جائیں جس کے سربراہ دیانتدار اور با اعتماد سرکاری افسر ہوں (اس سے بڑا لطیفہ کوئی نہیں) یہ کمیٹیاں محلے شہروں اور قصبوں میں ہونے والی شادیوں کے اخراجات سے باخبر ہوں اور حکومت کو مطلع کریں ان کمیٹیوں کی مشینری لازماًایماندار ہونی چاہیے نیزیہ کہ جہیز کے نقائص اور اس کے خراب سماجی، اقتصادی نتائج بارے دستاویزی فلمیں تیار کی جائیں۔ حکومت ان کو عوام تک پہنچائے (وہ اپنے کارنامے کیوں نہ پہنچائے) اور اخبارات میں اس بارے اشتہارات دے کر عوام میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ واقعی کوئی پابندی لگائی گئی ہے۔ (جس طرح سائبر کرائم بل میں زبان بندی کی گئی ہے) حقیقت میں اس کے کیا فوائد ہیں اس کے علاوہ اس بات پر بھی زور دینا چاہیے کہ دوسری سماجی برائیوں، غیر ضروری رسم و رواج بیاہ شادیوں پر روشنیوں کا استعمال، آتش بازی، نمود و نمائش اور اس طرح کی دوسری رسومات پر پابندی لگائی جانی چاہیے تاکہ نچلے طبقے کے لوگ دیکھا دیکھی میں ایسے کام نہ کریں۔ مجھے یہ مضمون پڑھ کر چند دن پہلے کا ایک واقعہ یاد آ گیا،

ملتان کے ایک جیولر کے پاس ہم جیولری دیکھ رہے تھے سیل مین نے کہا جی میں آپ کو مہرالنساء سیٹ دکھاتا ہوں۔ مہرالنسائ؟
ہم نے حیرت سے پوچھا جی ہاں وہ سینہ چوڑا کر کے بولا وزیراعظم نواز شریف نے اپنی نواسی کو جو سات کروڑ کا سیٹ دیا تھا وہ ہم نے صرف سات لاکھ میں تیار کر لیا ہے، یہ دیکھیں یہ کہہ کر اس نے وہ سیٹ نکالا جو واقعی نواز شریف کی نواسی کے سیٹ کی نقل تھی۔
کہنے لگا وہ تو جی خزانے پہ بیٹھے ہیں سات کروڑ کا سیٹ دے سکتے ہیں لیکن ہم نے بھی غریب عوام کے لئے سات لاکھ میں ویسا سیٹ بنا لیا ہے غریب عوام؟
ایک بار پھر ہمارے منہ سے نکلا۔
جی ہاں جی! یہ ایک پولیس افسر نے اپنی بیٹی کی شادی کےلئے بنوایا ہے پولیس افسر کی تنخواہ میں سات لاکھ کا ایک سیٹ؟
ہم نے غریب شہریوں کے حق پر ڈاکہ ڈالنا مناسب نہ سمجھا اور سیٹ واپس رکھوا دیا۔ یہ ہوتی ہے دیکھا دیکھی،
جب حکمران اپنے مال کی جو انہوں نے عوام کو ہی لوٹ کر بنایا ہے اس طرح اندھا دھند نمائش کریں گے تو عوام کو وہ کس طرح حکماً ایسے کاموں سے روک سکتے ہیں
وزیراعظم کی نواسی تو 37 ارب کا ٹھیکہ بھی جہیز میں لے گئی تھی جو اس غریب قوم کے ٹیکسوں کے پیسے تھے بہرحال ہم تو کچھ نہیں کہہ سکتے، مال مفت ہو تو جتنا مرضی خرچ کرو۔

ایک مزے کی بات اور تھی جس میگزین میں یہ مضمون چھپا تھا اس کے اگلے ہی صفحے پر ”نیل آرٹ“ سے متعلق جان کاری دی گئی کہ آج کل یہ آرٹ کس قدر مقبول ہو رہا ہے نیلز یعنی ناخن پر طرح طرح کے آرٹ کے نمونے بنائے گئے تھے اور لڑکیاں اس طرح کی چیزیں دیکھ کر بہت متاثر ہوتی ہیں ایک دلہن تیار کروانے میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں یہ وہی جانتے ہیں جن کے گھر بیٹیاں ہیں کیونکہ ترغیبات کا عفریت ہر جانب منہ کھولے کھڑا ہے اور انسان اندھا دھند اسی طرف بھاگ رہا ہے ترغیبات کا سب سے بڑا ذریعہ میڈیا ہے چاہے وہ الیکٹرانک میڈیا ہو چاہے پرنٹ میڈیا، نت نئی ترغیبات اسی ذریعے سے پھیلتی ہیں جب اس طرح کی چیزیں انسانی نگاہوں سے گزرتی ہیں تو غریبوں کی خواہشیں بے لگام ہو جاتی ہیں۔ ریت رواج اس قدر بڑھا دیئے گئے ہیں کہ والدین بیٹی کو دلہن بنانے کےلئے مجبور ہو جاتے ہیں کہ اپنا گھر بیچ دیں یا خود کو بیچ دیں۔ اگر کوئی اس ریت و رواج سے روگردانی کرتا ہے تو بیٹی گھر بٹھائے۔

امیروں کی دیکھا دیکھی غریب بھی پیچھے نہیں رہتے وہ بھی لڑکی والوں سے گاڑی نہیں تو سکوٹر کا مطالبہ کر دیتے ہیں، ارے بہن شکر کریں ہم نے گاڑی نہیں مانگی آپ سستے میں چھوٹ رہی ہیں ورنہ آج کل تو گاڑی کا زمانہ ہے آپ لاکھ کہو ہم نے بیٹی کو اچھی تعلیم و تربیت دی ہے وہ گئی ”کھو کھاتے“ میں، اس کا کوئی مول نہیں مول ہے۔ جہیز ملبوسات اب ہزاروں سے لاکھوں میں پہنچ گئے ہیں، عروسی جوڑا جو صرف ایک روز کیلئے پہنا جاتا ہے، لاکھوں میں بنتا ہے۔ میک اپ کے اخراجات، مہندی اور نیل آرٹ ان سب پر لاکھوں خرچ ہو جاتے ہیں حالانکہ شادیاں اس وقت بھی ہوتی تھیں جب بہنیں، کزنیں مل کر دلہن کو مہندی لگا دیتی تھیں ساتھ ساتھ ہنسی مذاق اور خوش گپیاں جاری رہتیں لیکن اب مہندی بھی آرٹ بن گئی ہے اب ”پورٹریٹ “ مہندی کا رواج نکل رہا ہے دلہن کے ہاتھوں پر دولہے کی تصویر بنائی جائے گی بھلے اس دولہے کی ٹکے کی عزت نہ ہو وہ دلہن کے ہاتھوں پر ضرور چھپے گا اور پھر دھو دھو کے مٹے گا عجب تماشہ ہے اور شرم ان کو نہیں آتی جو آرٹ کے نام پر ان بدعتوں کو پھیلاتے ہیں اصلاح تو تب ہو گی جب حکومت ایسی چیزوں کا نوٹس لے گی ان کے خلاف قانون پاس کرے گی جب حکومتی لوگ ستر قسم کے کھانے کھائیں گے تو عوام کو کیسے جبراً منع کر سکتی ہے؟ ایسے میں ہر قسم کا قانون مذاق بن جاتا ہے، کیا اس طرح اصلاح احوال ہو سکتی ہے؟
٭٭


ح

 
Top