عدم جہاں فقیروں کو گھیر لیتی ہے ناگہاں گردش زمانہ

Zohaib Asif

محفلین
جہاں فقیروں کو گھیر لیتی ہے ناگہاں گردش زمانہ
وہاں سے رستہ ضرور جاتا ہے کوئی سؤ شراب خانہ

یہ کیا ہوا کہ ساکنان گلشن کو، کوئی جا کے خبر تو لائے
نا کوئی اڑتا ہوا تبسم، نا کوئی بہتا ہوا ترانہ

ملے ہیں دل پر نشاں دھندلے سے بارہا تری انگلیوں کے
مرا تعارف ہوا ہے شائد تری مروت سے غائبانہ

خزاں کے دل دوز حادثے پر خلوص سے غور کر رہا ہے
کہیں کہیں صحن گلستاں میں لٹا لٹا کوئی آشیانہ

ادھر سے آ ہی گئے ہو صاحب تو ہم فقیروں سے بخل کیسا
یہاں بھی امشب قیام کر لو، دعائیں دے گا غریب خانہ

یہ شام کے سائے ڈس نا جائیں، عدم کہیں سے شراب لاؤ
کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے ، بجھا ہوا ہے چراغ خانہ
 
Top