جھوٹ پر پلنے والی قوم

جاسم محمد

محفلین
تاریخ اشاعت 2020-12-20
جھوٹ پر پلنے والی قوم
رؤف کلاسرا

ارشاد بھٹی سے بائیس برس سے دوستی ہے۔ جب بھی سوشل میڈیا پر میرے خلاف نئی مہم چلتی ہے تو وہ بڑا انجوائے کرتا ہے۔ مجھے کہتا ہے: تم کس چکر میں ہو اب صلح کر لو‘ اس قوم کو وہی چورن بیچو جس کی یہ عادی ہے۔ مجھے یاد دلائے گا کہ بیس بائیس برس قبل تم ڈاکٹر ظفر الطاف کے دفتر میں ملے تھے تو اس وقت تم خبر کی تلاش میں تھے‘ آج بھی ہو۔ وہ مجھ سے پوچھتا ہے: ان بائیس برسوں میں تم نے کیا کر لیا؟ کیا تبدیلی آئی ہے‘ پچھلی اور نئی نسل میں ان برسوں میں؟ تم جن کے لیے سر کھپاتے ہو، اپنی زندگی دائو پر لگاتے ہو، روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہو، بچوں کو مسائل میں ڈالتے ہو وہی تمہارے خلاف دن رات بکواسیات کرتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے: اگر یہ قوم آج لیٹروں کے ہاتھوں لٹنے پہ خوش ہے تو تم انہیں ان کی خوشی سے محروم کیوں کرتے ہو؟ اس قوم کو اس سے کوئی فرق پڑا کہ ملک کے صدرنے سعودی بادشاہ سے کروڑوں ڈالر بخشش لے کر لندن میں جائیداد خرید لی اور بڑے فخر سے سب کو بتایا۔ نواز شریف نے لندن فلیٹ خرید لیے اس کے باوجود کروڑ‘ سوا کروڑ ووٹ لے گئے۔ خان صاحب نے چن چن کر انہی کرپٹ لوگوں کو کابینہ میں بٹھایا جن کے خلاف انہوں نے تحریک شروع کی تھی۔ ان کی مقبولیت پر کوئی فرق پڑا؟ الٹا قوم ان پر صدقے اور قربان۔ وہ میرے وی لاگ کو دیکھ کر کہتا ہے: تم بھی دیگر وی لاگرز کی طرح لائن لے لو کہ آج خان نے اتنا بڑا بم چلا دیا، آج توپ چلا دی، آج دن میں تارے دکھا دیے، اب خان کسی کو نہیں چھوڑے گا، بڑا فیصلہ کر لیا، پھر دیکھو کیسے دھڑا دھڑ تمہارے وی لاگ بکتے ہیں۔ تم ٹھہرے وہی پینڈو اور اولڈ سکول جو ایسے کام نہیں کرتے۔ وہ مجھے دو تین لوگوں کی مثال دیتا ہے کہ وہ اس معاشرے کو درست سمجھے ہیں۔ وہ وہی چورن بیچتے ہیں جس کی مارکیٹ میں طلب ہے۔ ان کا کام بھی چل رہا ہے‘ ان سے حکومتیں، حکمران‘ سیاستدان اور ان کے فالورز بھی خوش ہیں اور ان کی جیبیں بھی بھر رہی ہیں۔ ہوا بدل جائے تو وہ بھی بدل جاتے ہیں راتوں رات۔
بھٹی نے یہ سب صلواتیں مجھے اس لئے سنائی ہیں کہ پھر سوشل میڈیا پر حکمران جماعت کے حامیوں نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔ میرے دو ویڈیو کلپس اٹھا کر پھیلا دیے گئے ہیں۔ ایک کلپ میں، میں کہہ رہا ہوں کہ عمران خان صاحب نے مجھے اور عامر متین کو دس دفعہ کہا کہ میرا انٹرویو کرو اور ہم نے نہیں کیا۔ دوسرے کلپ میں، میں کہہ رہا ہوں کہ خان صاحب ہمیں انٹرویو دے دیں تو مانیں۔ مطلب لوگوں کو بتایا جا رہا ہے دیکھو کتنا جھوٹا ہے کہ ایک طرف کہتا ہے‘ خان نے منتیں کیں کہ انٹرویو لے لو لیکن ہم نے نہیں لیا‘ لیکن ساتھ ہی انٹرویو مانگ رہا ہے۔ دونوں باتیں ٹھیک ہیں۔ فرق یہ ہے کہ دونوں کلپس میں چار سال کا دورانیہ ہے‘ لیکن چورن بیچنے والے کب ان باتوں کا خیال کرتے ہیں‘ لہٰذا پھیلائے جا رہے ہیں اور قوم سے زیادہ ارشاد بھٹی میری درگت بنتے دیکھ کر خوش ہے۔ کہتا ہے: اب اس قوم کے نونہالوں کو ذرا سمجھا کر دکھائو کہ دونوں کلپس کا بیک گرائونڈ مختلف ہے اور ان میں چار سال کا فرق ہے۔ میں نے کہا: بھٹی یہ قوم اتنی ہوشیار ہوتی تو اس حالت تک پہنچتی؟ یہاں فراڈیے اور بہروپیے کامیاب ہیں۔
خیر اب پوری کہانی سنیں۔ دو ہزار سولہ سترہ کی بات ہے۔ پانامہ کا مقدمہ سپریم کورٹ میں چل رہا تھا۔ عامر متین روز عدالت میں کیس کی سماعت سننے جاتے تھے۔ رات کو ہمارے پروگرام میں ساری روداد بیان کرتے تھے۔ عمران خان صاحب روزانہ عامر متین کو سپریم کورٹ میں ملتے اور ہمارے پروگرام کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے تھے۔ انہوں نے کئی بار عامر متین‘ ارشد شریف اور میرا نام ٹی وی انٹرویوز اور جلسوں میں بھی لیا۔
اب انہوں نے عامر متین کو کہنا شروع کیا کہ میرا اپنے شو کیلئے انٹرویو کریں۔ مجھے بنی گالہ سے انکے سیکرٹری نے کئی دفعہ کال کرکے کہا کہ خان صاحب آپ لوگوں کو انٹرویو دینا چاہتے ہیں۔ ان دنوں خان صاحب روز تین چار انٹرویو دے رہے تھے۔ وہ ہر جگہ وہی باتیں دہرا تے۔ ہم نے کہا: ہمارے شو کا فارمیٹ مختلف ہے‘ لہٰذا ہم انٹرویوز نہیں کرتے۔ اصرار جاری رہا کہ آپ کا شو زیادہ دیکھا جاتا ہے‘ لہٰذا وہ اپنی بات عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہم نے پھر معذرت کی۔ جب اصرار بڑھا تو ہم نے کہا: چلیں آپ ویڈیو لنک پر لائیو ہمارے شو میں آجائیں۔ وہ بولے: نہیں‘ آپ تینوں بنی گالہ آئیں۔ ہم نے کہا: تین لوگ کیسے آپ کا انٹرویو کریں گے؟ یوں وہ لنک پر آنے کو تیار نہ ہوئے اور ہم بنی گالہ نہ گئے۔ یہ تھی انکار کی وجہ۔
اب آتے ہیں دو ہزار بیس کے ویڈیو کلپ کی طرف۔ میں نے پچھلے ہفتے اپنے شو میں کہا: خان صاحب اب ہمیں انٹرویو دیں۔ ہمیں علم ہے‘ وہ انٹرویو نہیں دیں گے کیونکہ جب بھی وزیر اعظم کی صحافیوں سے ملاقات ہوتی اور ہم دونوں کوئی سوال کرتے تو وہ ناراض ہوتے تھے ۔ان کی کارکردگی پر بہت سے سوالات ہیں جو ہم اپنے شوز میں اٹھاتے ہیں، سکینڈلز اور سٹوریز کرتے ہیں۔ اس بات کا خان صاحب اور ان کی ٹیم کو علم ہے کہ وہ کون سے سوالات ہیں جو انہیں مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ شاید آپ کو علم ہو کہ اب اگر وہ انٹرویو کے لیے راضی ہوتے ہیں تو پہلے پوری تسلی کی جاتی ہے کن ایشوز پر بات ہونی ہے اور ان کی میڈیا ٹیم انٹرویو کرنے والے کو کچھ ریڈ لائن سمجھا دیتی ہے۔ مجھے اور عامر کو کبھی اس طرح کے انٹرویوز کا شوق نہیں رہا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ جو کرتے ہیں‘ وہ اچھا نہیں کرتے‘ سب اچھا کرتے ہیں‘ اپنے اپنے حساب سے۔
ویسے خان صاحب جب وزیر اعظم بنے تھے اور ان کی صحافیوں سے پہلی ملاقات ہوئی تھی تو میرے خاور مانیکا کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ناراض ہو گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد پھر ایک سوال پوچھا تو پھر ناراض ہو گئے۔ ایک دن سب صحافیوں کے سامنے خان صاحب نے کہا: رئوف کلاسرا‘ عامر میتن اور محمد مالک میری حکومت کا پوسٹ مارٹم کرنا بند کر دیں تو ملکی اکانومی ٹھیک ہوجائے گی۔ اس پر کاشف عباسی نے سب کے سامنے کہا: خان صاحب رئوف کلاسرا اور عامر متین کا شو تو بند ہو چکا محمد مالک کا بھی بند کرا دیں تاکہ ملک ٹھیک ہو جائے۔ اس پر قہقہہ پڑا تھا۔
کسی بھی وزیر اعظم کے لیے ایسے رپورٹر کو انٹرویو دینا مشکل ہوتا ہے جو اس کی حکومت اور وزیروں کے سکینڈلز فائل کرتا ہو۔ یہ سیاسی سوالات و جوابات بڑے آسان ہوتے ہیں لیکن جب پوائنٹ بلیک آپ کے ایک ایک قریبی دوست اور تگڑی پارٹیوں کا کچا چٹھا پوری قوم سامنے کھولا جا رہا ہو تو بڑے بڑے رہ جاتے ہیں۔ اس لیے اب جب ہم کہتے ہیں کہ خان صاحب ہمیں انٹرویو دیں کہ اپوزیشن میں انٹرویو دینا آسان ہوتا ہے اور وہ بھی جب آپ نے کبھی حکومت نہ کی ہو‘ لیکن حکومت میں بیٹھ کر درجن بھر سکینڈلز آنے کے بعد انٹرویو دینا کچھ اور ہوتا ہے۔ اگر آپ نے ہمارا شو کبھی دیکھا ہو تو اس میں سکینڈلز اور اندورنی خبریں زیادہ ہوتی ہیں جو کسی بھی حکومت کیلئے پشیمانی کا سبب ہوتی ہیں اور وہ بھی خان صاحب روز سنجیدہ چہرے ساتھ قوم کوجو باتیں بتاتے ہوں ان میں کچھ درست نہیں ہوتیں۔
اب ہم جان بوجھ کر اپنے ٹی وی شو میں تھوڑی سی چھیڑ خانی کرتے ہیں کہ خان صاحب اپوزیشن میں اس وقت تو آپ روز عامر متین کو کہتے تھے میرا انٹرویو کریں‘ اب آپ وزیراعظم ہیں تو ہمیں انٹرویو دیں کیونکہ پوچھنے کے لیے بہت سوالات ہیں۔ اپوزیشن میں خاک انٹرویو کا مزہ آتا ہے۔ بندہ سوالات پوچھے تو اس وقت پوچھے جب بندہ اقتدار میں ہو اور طاقتور ہو۔
اب ان دو واقعات‘ جن میں تین چار سال کا فرق ہے‘ کو جوڑ کر قوم کو چورن کھلایا جارہا ہے‘ جو بقول ارشاد بھٹی ہماری مرغوب غذا ہے۔ جو قوم جھوٹ پر پلتی ہو اسے پھر اس طرح کے ہی حکمران ملتے ہیں۔ شکوہ کیسا؟
 

جاسم محمد

محفلین
وہ میرے وی لاگ کو دیکھ کر کہتا ہے: تم بھی دیگر وی لاگرز کی طرح لائن لے لو کہ آج خان نے اتنا بڑا بم چلا دیا، آج توپ چلا دی، آج دن میں تارے دکھا دیے، اب خان کسی کو نہیں چھوڑے گا، بڑا فیصلہ کر لیا، پھر دیکھو کیسے دھڑا دھڑ تمہارے وی لاگ بکتے ہیں۔
سینیر صحافیوں کو احساس ہو چکا ہے کہ ان کا چورن پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے بعد اب یوٹیوب جیسے ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد پلیٹ فورم پر بھی نہیں بک رہا۔ اس لئے وہ اپنی ناکامی کا الزام ان نوجوان یوٹیوبرز پر لگا رہے ہیں۔ جن کے پاس کمرہ عدالت سے لے کر وزیر اعظم کی کابینہ اجلاس تک کی خبریں موجود ہوتی ہیں۔
کل ایک سینیر صحافی مبش۔ر زیدی نے نوجوان یوٹیوبر صدیق جان کو بتایا کہ ان کے نزدیک صحافت کی تعریف حکومت کا احتساب کرنا ہے۔ یعنی اگر حکومت کوئی اچھا بھی کر رہی ہے تو صحافی اس کو عوام تک نہ پہنچانا کا پابند ہے۔ کیونکہ اس کا کام تو حکومت کا احتساب کرنا ہے۔ یوں جب یہ نوجوان یوٹیوبر عوام تک حکومت کے اچھے کاموں کی خبریں دیتے ہیں تو ان سینیر صحافیوں کو آگ لگ جاتی ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک تو یہ صحافت ہی نہیں۔ صحافت صرف وہ ہے جس میں حکومت پر مسلسل تنقید کے نشتر چلائے جائیں۔
 

احسن جاوید

محفلین
پی ٹی آئی لاہور کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے ایک بولڈ اینڈ بریو اور دوسری لاؤڈ اینڈ کلیئر والی لسٹ بھی تو پبلش ہوئی تھی، وہ نظر نہیں آ رہی۔ ;)
 

جاسم محمد

محفلین
پی ٹی آئی لاہور کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے ایک بولڈ اینڈ بریو اور دوسری لاؤڈ اینڈ کلیئر والی لسٹ بھی تو پبلش ہوئی تھی، وہ نظر نہیں آ رہی۔ ;)
وہ لسٹ پبلش کرنے کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ عوام خود بڑی سمجھدار ہے اور اچھی طرح جانتی ہے کہ کونسے صحافی یا اینکر نے کونسی لائن پکڑی ہوئی ہے۔ :)
 

بابا-جی

محفلین
سینیر صحافیوں کو احساس ہو چکا ہے کہ ان کا چورن پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے بعد اب یوٹیوب جیسے ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد پلیٹ فورم پر بھی نہیں بک رہا۔ اس لئے وہ اپنی ناکامی کا الزام ان نوجوان یوٹیوبرز پر لگا رہے ہیں۔ جن کے پاس کمرہ عدالت سے لے کر وزیر اعظم کی کابینہ اجلاس تک کی خبریں موجود ہوتی ہیں۔
کل ایک سینیر صحافی مبش۔ر زیدی نے نوجوان یوٹیوبر صدیق جان کو بتایا کہ ان کے نزدیک صحافت کی تعریف حکومت کا احتساب کرنا ہے۔ یعنی اگر حکومت کوئی اچھا بھی کر رہی ہے تو صحافی اس کو عوام تک نہ پہنچانا کا پابند ہے۔ کیونکہ اس کا کام تو حکومت کا احتساب کرنا ہے۔ یوں جب یہ نوجوان یوٹیوبر عوام تک حکومت کے اچھے کاموں کی خبریں دیتے ہیں تو ان سینیر صحافیوں کو آگ لگ جاتی ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک تو یہ صحافت ہی نہیں۔ صحافت صرف وہ ہے جس میں حکومت پر مسلسل تنقید کے نشتر چلائے جائیں۔
صحافت بہ مثل آئینہ ہے، جو ہے، وُہی دکھانا چاہیے اور یِہ معرُوضی طرز پر ہو مگر تجزِیہ وغیرہ کرنا یا کالم لکھنا شخصی پن لِیے ہوتا ہے اور اِس میں اپنی رائے دینا غلط نہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہنسیے گا نہیں مگر جانے کیوں مجھے بعض اوقات لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ تربوز کی طرح ہے، اوپر سے سبز اور اندر سے سرخ، کہیں کہیں چلمن سے جھانکتے سیاہ بیجوں کے جلوے رونق دکھاتے ہیں۔ منافقانہ عظمت کا یہ پہلو بھی نہایت دلچسپ ہے کہ ہمارے درمیان ایسے بیشمار مصدقہ مفروضے موجود ہیں جنکا وجود بذات خود سوالیہ نشان ہے۔ پارلیمنٹ بالادست ہے، فوج کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں، انتظامیہ آئین و قانون کی پابند ہے، اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے، جمہوریت کے خلاف سازش کرنیوالے سزا سے نہیں بچ سکتے، دہشتگردوں کی کمر توڑی جا چکی ہے۔ پاکستان جلد ایک فلاحی ریاست بن جائیگا، پولیو ڈراپس مغربی سازش ہے، ہماری ہر خامی و کجی یہود و ہنود کی سازش وغیرہ وغیرہ۔ حضور یہ دو رخی اور کھوکھلا پن ہماری زندگیوں کا ادھورا سچ ہے۔ قول و فعل کا تضاد اب برائی نہیں اسمارٹنس اور فیشن ہے۔ اسلامی ریاست، پورا معاشرہ کٹر مذھبی مگر سبیل پر پانی کے گلاس میں زنجیر اور مساجد میں چپلیں محفوظ نہیں، پوری قوم جمہوری چیمپئین مگر فوجی آمروں کی مداح، سیاسی رہنمائوں میں سو عیب مگر ووٹ پھر بھی انکا، 70 ہزار جانوں کی قربانی کے بعد یہ بحث حتمی نتیجے پر نہ پہنچی کہ افغان جنگ ہماری تھی یا امریکہ بہادر کی، حضور تربوزیات کی ایک طویل تاریخ ہے، ہم اور آپ سب اس سے بخوبی واقف ہیں بلکہ چاہتے نہ چاہتے اسکا حصہ بھی ہیں۔ سچ اور جھوٹ کے درمیان رہنا کتنے ہی اعزاز کی بات کیوں نہ ہو مگر ہوا کچھ یوں کہ ہمارے ساتھ اور ہمارے بعد بلکہ ہم سے ٹوٹ کر ملک بننے والے بھی آگے نکل گئے، مگر ہم اپنی خو نہ بدلیں گے کے مصداق اپنے ادھورے سچ پر اٹل کھڑے ہیں۔ چین کی تو بات چھوڑیں بہت بڑا ملک ہے، بھارت، سری لنکا، ملائشیا، انڈونیشیا اور اب تو بنگلہ دیش بھی ہم سے کہیں زیادہ معاشی استحکام کیساتھ آگے کھڑا ہے۔ ستر سال آمریت اور جمہوریت کی گود میں پلنے والی قوم ابہام کے مزے لوٹ رہی ہے۔

سیانے کہتے ہیں ادھورا سچ، جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہے، تو حضور سچ اور جھوٹ کے درمیان منافقانہ روش پر چہل قدمی کرنیوالی قومیں ادھوری کیوں نہ ہوں؟ ویسے آپس کی بات ہے یہ گرے ایریا بڑی پراسرار جگہ ہے جہاں ہر گام ابہام کی دبیز دھند تلے ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دیتا، سو ہم، آپ اور پورا معاشرہ خوفناک اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے سہانے سپنوں کی تعبیریں ٹٹول رہے ہیں۔
سچ اور جھوٹ کے درمیاں - aik Rozan ایک روزن
 

جاسم محمد

محفلین
ہنسیے گا نہیں مگر جانے کیوں مجھے بعض اوقات لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ تربوز کی طرح ہے، اوپر سے سبز اور اندر سے سرخ، کہیں کہیں چلمن سے جھانکتے سیاہ بیجوں کے جلوے رونق دکھاتے ہیں۔ منافقانہ عظمت کا یہ پہلو بھی نہایت دلچسپ ہے کہ ہمارے درمیان ایسے بیشمار مصدقہ مفروضے موجود ہیں جنکا وجود بذات خود سوالیہ نشان ہے۔ پارلیمنٹ بالادست ہے، فوج کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں، انتظامیہ آئین و قانون کی پابند ہے، اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے، جمہوریت کے خلاف سازش کرنیوالے سزا سے نہیں بچ سکتے، دہشتگردوں کی کمر توڑی جا چکی ہے۔ پاکستان جلد ایک فلاحی ریاست بن جائیگا، پولیو ڈراپس مغربی سازش ہے، ہماری ہر خامی و کجی یہود و ہنود کی سازش وغیرہ وغیرہ۔ حضور یہ دو رخی اور کھوکھلا پن ہماری زندگیوں کا ادھورا سچ ہے۔ قول و فعل کا تضاد اب برائی نہیں اسمارٹنس اور فیشن ہے۔ اسلامی ریاست، پورا معاشرہ کٹر مذھبی مگر سبیل پر پانی کے گلاس میں زنجیر اور مساجد میں چپلیں محفوظ نہیں، پوری قوم جمہوری چیمپئین مگر فوجی آمروں کی مداح، سیاسی رہنمائوں میں سو عیب مگر ووٹ پھر بھی انکا، 70 ہزار جانوں کی قربانی کے بعد یہ بحث حتمی نتیجے پر نہ پہنچی کہ افغان جنگ ہماری تھی یا امریکہ بہادر کی، حضور تربوزیات کی ایک طویل تاریخ ہے، ہم اور آپ سب اس سے بخوبی واقف ہیں بلکہ چاہتے نہ چاہتے اسکا حصہ بھی ہیں۔ سچ اور جھوٹ کے درمیان رہنا کتنے ہی اعزاز کی بات کیوں نہ ہو مگر ہوا کچھ یوں کہ ہمارے ساتھ اور ہمارے بعد بلکہ ہم سے ٹوٹ کر ملک بننے والے بھی آگے نکل گئے، مگر ہم اپنی خو نہ بدلیں گے کے مصداق اپنے ادھورے سچ پر اٹل کھڑے ہیں۔ چین کی تو بات چھوڑیں بہت بڑا ملک ہے، بھارت، سری لنکا، ملائشیا، انڈونیشیا اور اب تو بنگلہ دیش بھی ہم سے کہیں زیادہ معاشی استحکام کیساتھ آگے کھڑا ہے۔ ستر سال آمریت اور جمہوریت کی گود میں پلنے والی قوم ابہام کے مزے لوٹ رہی ہے۔

سیانے کہتے ہیں ادھورا سچ، جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہے، تو حضور سچ اور جھوٹ کے درمیان منافقانہ روش پر چہل قدمی کرنیوالی قومیں ادھوری کیوں نہ ہوں؟ ویسے آپس کی بات ہے یہ گرے ایریا بڑی پراسرار جگہ ہے جہاں ہر گام ابہام کی دبیز دھند تلے ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دیتا، سو ہم، آپ اور پورا معاشرہ خوفناک اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے سہانے سپنوں کی تعبیریں ٹٹول رہے ہیں۔
سچ اور جھوٹ کے درمیاں - aik Rozan ایک روزن
ایک طرف یہ دیسی لبرل ملک میں آزادی اظہار نہ ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں تو دوسری طرف یوٹیوبر صدیق جان کو اپنا موقف دینے کیلئے پروگرام میں بلوانے پر چیخیں مار رہے ہیں۔
منافقت کی کوئی حد ہے اس معاشرہ میں؟
 
Top