جو روشنی کا شہر تھا برباد ہو گیا ......

جو روشنی کا شہر تھا برباد ہو گیا ......

ہم نے سنا ہے روشنی ہوتی ہے کوئی شے
دیکھی نہیں مگر یہ بتاتے ہیں لوگ..! ہے​

آتی تھی میرے شہر میں سنتے ہیں آج ہم
اس کو اٹھا کے لے گیا ظالم کوئی صنم​

یہ روشنی ہے کیا یہ خلل ہے دماغ کا
ہم کو نہیں پتا کہ یہ ہوتی ہے کیا بلا​

آتی ہے میرے ملک میں یہ بھی کبھی کہیں
دیکھی کسی نے ہے یہ بتاتا کوئی نہیں​

سنتے ہیں اس کو کھا گیا عفریت تھا کوئی
و الله اس کے ساتھ یہ کتنی بری ہوئی​

تاریں گلی گلی میں یہ لٹکی ہوئی ہیں کیوں
دیکھے ہے ان کو آنکھ تو آتا نہیں سکوں​

پنکھوں پے مکڑیوں نے ہیں جالے بنا دیے
لوگوں نے تیل ڈال کے اے سی جلا دیے​

سنتے ہیں لالٹین کے بزنس کو ہے عروج
اندھیر! ہم جہاں سے گھسے تھے وہ ہے خروج​

لیکن عجیب بات یہ آتا ہے اب بھی بل
بل بھی ہے اسقدر کہ جلاتا ہے میرا دل​

جو روشنی کا شہر تھا برباد ہو گیا
دولت سے ان کا گھر مگر آباد ہو گیا​

اب سوچتے ہیں کس سے یہ فریاد ہم کریں
لوٹا کسی نے گھر کو ہے تاوان ہم بھریں​

آخر مچے گا شہر میں اندھیر کب تلک
بجلی ..!یہ التجا ہے دکھا دے بس اک جھلک​

مولا یہ التجا ہے مٹا دے اب انکو تو..
کرتے ہیں بد دعا یہ تیرے لوگ با وضو...​

کر دے تو آسمان سے نازل کوئی عذاب
ظلمت کا میرے شہر میں خانہ ہو اب خراب​

آئے تیری جناب سے اب نور اے خدا
ظلمت کدے میں روشنی بھر دے میرے خدا​

حسیب احمد حسیب

 
Top