جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا

تصحیح اور ترمیم کے بعد پوری غزل کچھ یوں ہے

جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
جذبات کا دریا ہے ، اتر کیوں نہیں جاتا

کیا یوں ہی سدا بے حِس و خاموش رہوں گا
ہمدم تو دعا گو ہے ، میں مر کیوں نہیں جاتا

رہی ایسی ہوائیں ہی سدا میرے مقابل
میں خاک اگر ہوں تو بکھر کیوں نہیں جاتا

تو آئینہ تمثال ہے گر ماہ جبیں ، پھر
ان عیب و ہنر میں ، میں سنور کیوں نہیں جاتا

مدّت سے مہربان نہیں یار تو ، لیکن
دل سے ، تری الفت کا اثر کیوں نہیں جاتا

مانا کےہے وا تجھ پے در صدغم و آلام
یہ وقت کڑا ہے تو گزر کیوں نہیں جاتا

دونوں ہی گرفتار اگر موج غم عشق
دامن یہ ترا صبح کو تر کیوں نہیں جاتا

جادو تیری نظروں کا اگر تھا نہ وہ کاشفؔ
اس دل سے مرے ان کا سحر کیوں نہیں جاتا



اغلاط کی نشان دہی کا منتظر رہونگا
شکریہ
 
Top