جن کے لئے دنیا جہنم بن گئی-2.

ڈنمارک کے کرٹ ویسٹ گارڈ کے متعلق ابھی لکھ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ پتہ چلا کہ اس نے جیلینیڈ پوسٹن نامی اخبار چھوڑ دیا ہے اور نوکری ختم کر دی ہے۔ ملعون کارٹونسٹ کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے جذبات شاید اسی طرح ٹھنڈے پڑ جائیں او وہ اس کی جاں بخشی کر دیں اور وہ دوبارہ سے عام انسانوں کی سی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے لیکن.... کیا اب ایسا ممکن ہے....؟ یقینا نہیں یہ تو اس کا اب خواب ہی ہے جو شاید کبھی پورا نہ ہو گا۔ ہمیں تو یقین ہے کہ اب اس ملعون کو بھی امن و سکون تب ہی ملے گا جب وہ اس نبی مکرم محمدﷺ کا حکم پڑھ کر ان کا امتی بننے کا اعلان کرے گا جن کی اس نے اپنے طور پر توہین کی کوشش کی تھی (ہمارا تو ایمان ہے کہ نبی مکرمﷺ کی کافر توہین کرنے میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتے) ابھی یہی کچھ سوچ رہا تھا کہ مولانا امیر حمزہ صاحب بتانے لگے کہ ہالینڈ سے تعلق رکھنے والا ایک صحافی ان کے پاس انٹرویو کے لئے آ رہا ہے لہٰذا آپ بھی پاس تشریف رکھیں۔ ہالینڈ کے سب سے بڑے نیوز گروپ GDP کے اس صحافی نے بتایا کہ ان کے ملک کا ایک بڑا سیاستدان جس کا نام ویلڈر ہے نے ”فتنہ“ نامی فلم بنائی تھی اور اسلام، قرآن اور نبی کریم محمدﷺ کے بارے میں نازیبا انداز و الفاظ استعمال کر کے مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کیا تھا آج کل شدید مشکلات سے دوچار ہے، اس کے چار اطراف پولیس کا پہرہ ہتا ہے۔ آزادانہ گھوم پھر نہیں سکتا، ہالینڈ میں کسی کو معمولی سے معمولی اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں، ملک دنیا کے پرامن ترین خطوںمیں شمار ہوتا ہے لیکن ویلڈر کو محسوس ہوتا ہے جسے موت اس کے ساتھ سائے کی طرح چل رہی ہو۔ اس پر چھوٹے موٹے حملے بھی ہوئے۔ وہ ملک سے باہر جانے سے خوفزدہ ہے۔ روپ بدلتا رہتا ہے.... اس کی زندگی انتہائی مشکل ہو چکی ہے، یہیں سے سویڈن کا خیال آیا۔ یہ ملک بھی دنیا کے پرامن ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں بھی اسلحہ کے حوالے سے ہالینڈ کا ہی قانون لاگو ہے۔ اس ملک کے دارالحکومت کا نام سٹاک ہوم ہے، جہاں کی اوپسالا یونیورسٹی میں لارس ولکس نامی شخص کا 11 مئی 2010ءکو خصوصی لیکچر رکھا گیا ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے 2007ءمیں ایک گستاخانہ بنایا تھا اس وقت سے لے کر آج تک اس کے چار اطراف پولیس کے پہرے رہتے ہیں۔ خفیہ ایجنسیاں اس کی خیرگیری رکھتی ہیں۔ یہاں آتے وقت بھی اس کے ساتھ زبردست سکیورٹی کا اہتمام کیا گیا اور وہ حفاظتی انتظامات کی مکمل کلیئرنس کے بعد یہاں پہنچا تھا۔ اس نے ہال میں پہنچ کر لیکچر کا آغاز کیا ابھی 20 منٹ بیتے تھے کہ اس کی زبان سے ”اسلام“ کا لفظ نکل گیا۔ جس کے ساتھ کوئی توہین آمیز لفظ استعمال کیا گیا تھا اس کے ساتھ ہی پہلی لائن میں بیٹھے ایک شخص نے آﺅ دیکھ نہ تاﺅ، دیوانہ وار ولکس پر حملہ کر دیا۔ ولکس کے چہرے پر مکا لگا، چشمہ ٹوٹ گیا، چکرا کر گر پڑا۔ مزید کئی نوجوان اٹھے انہوں نے لاتوں، مکوں اور گھونسوں کی بارش کر دی۔ پولیس کے اہلکار جو تمام تر سازوسامان سے لیس بڑی تعداد میں کھڑے تھے نے مل کر بڑی مشکل سے ولکس کو باہر نکالا، ہجوم قابو میں نہیں آرہا تھا، پولیس نے آنسو گیس چھوڑنا شروع کی اور ولکس کو بکتر بند گاڑی میں ڈال کر محفوظ مقام کی طرف لے گئی۔ دو روز بعد اسے گھر منتقل کر دیا گیا جہاں پہلے ہی سخت ترین پہرہ لگایا گیا تھا۔ یہاں سکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کر دیئے گئے تھے۔ یہاں دو روز ولکس نے جاگتے جاگتے گزار دیتے۔ 16 مئی کی شب اچانک دھماکہ ہوا گھر کی کھڑکیاں ٹوٹیں اور گھر میں آگ لگ گئیں۔ پولیس نے دوڑیں لگا دیں۔ فائر بریگیڈ کو طلب کر کے آگ بجھائی گئی، پتہ چلا کسی نے گھر پر یہ پٹرول بموں سے حملہ کر کے آگ لگا دی تھی۔ سٹاک ہوم کا میڈیا بھی پہنچ گیا، ولکس رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا
Probabey i cant live there any more ”بلا شک و شبہ اب میں یہاں مزید کسی صورت نہیں رہ سکتا“۔
ولکس کو اسی وقت یہاں سے غائب کر دیا گیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔ یونیورسٹی پر حملے کرنے والے دو مسلمان گرفتار کر لئے گئے۔ اس سے قبل آئر لینڈ سے بھی چار مسلمانوں جن میں دو خواتین تھیں کو گرفتار کیا گیا تھا جو سب کے سب ولکس پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ مارچ میں ہی ایک امریکی مسلمان جس نے اپنا نام ”جہاد جین“ رکھا تھا کو بھی ولکس کے قتل کی سازش کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ولکس اب تک نامعلوم مقام پر ہے، کسی کو پتہ نہیں وہ کہاں ہے؟ کیا کرتا ہے....؟ اس کے شب و روز کیسے ہیں؟
(جاری ہے
http://www.thrpk.org/data1/articles/aliimranshaheen02.htm
 
Top