فراز جن کو دوست سمجھتے تھے وہ دوست نما کہلاتے تھے

عدنان اکرم

محفلین
جن کو دوست سمجھتے تھے وہ دوست نما کہلاتے تھے
ہم میں کچھ اہلِ دل بھی اہلِ دنیا کہلاتے تھے

لوگو ایک زمانہ تھا جب ہم کیا کیا کہلاتے تھے
دردِ آشوب سے پہلے ہم تنہا تنہا کہلاتے تھے

جتنے بھی محبوب تھے ان کو عہد شکن یاروں نہ کہا
جتنے بھی عشاق تھے سارے اہلِ وفا کہلاتے تھے

ہم تو دیارِ جاناں کو کہتے ہیں دیارِ جاناں بس
پہلے دلداروں کے قریے شہرِ سبا کہلاتے تھے

تیرے لئے اب کیوں نہ کوئی تازہ تشبیہ تلاش کریں
چاند فسانہ تھا تو دلبر ماہ لقا کہلاتے تھے

تیرے خرام کو نسبت دیتے کبکِ دری کی چال سے لوگ
گل جب چاک گریباں ہوتے تیری قبا کہلاتے تھے

آؤ خاک سے رشتہ جوڑیں، وہم فلک افلاک ہوئے
ہاتھ قلم ہونے سے پہلے دستِ دعا کہلاتے تھے

اپنی ویراں آنکھوں کا اب کس سے حال احوال کہیں
اب جو صحرا دیکھتے ہو آگے دریا کہلاتے تھے

جو نایافت تھی اُس خوشبو کی کھوج میں ہم صحرا صحرا
لہو لہان پھرا کرتے تھے آبلہ پا کہلاتے تھے

دل پاگل تھا یونہی پکارے جاتا تھا جاں جاناں
پر جو بیت بھی ہم کہتے تھے ہوشربا کہلاتے تھے

بے آواز گلی کوچوں میں عشق دہائی دیتا تھا
بستی بستی اہلِ نوا زنجیر بپا کہلاتے تھے

گلیوں گلیوں لئے پھرے نابینا شہر میں آئینہ
شاعر تھے پر شعر اپنے حرفِ عیسا کہلاتے تھے

پس انداز سبھی موسم تھے اہلِ چمن کے توشے میں
عہدِ خزاں کے جھونکے بھی جب بادِ صبا کہلاتے تھے

اب بھی خوابِ گل ہے پریشاں اب بھی اسیر عنادل ہیں
کل بھی باغ میں گلچیں اور صیاد خدا کہلاتے تھے

غزل بہانہ کرتے کرتے لفظ ہی بے توقیر ہوئے
سازِ سخن کو بھول چکے جو نغمہ سرا کہلاتے تھے

جب سے فرازؔ تخلص رکھا ملکوں ملکوں رسوا ہیں
ورنہ ہم بھی اوّل اوّل احمد شا کہلاتے تھے
 

سید عمران

محفلین
ویسے بھی پتا نہیں کیا اوٹ پٹانگ لکھا ہے۔۔۔
نہ لکھنے والے کو پتا کیا لکھ دیا، نہ پڑھنے والے کو پتا کیا پڑھ دیا!!!
 

سید عمران

محفلین
امید ہے اس اوٹ پٹانگ غزل نما زمین پر کوئی استاد نما نہیں آنے والا لہٰذا ہم خود سے اجازت لیتے ہوئے خود کو اجازت دیتے ہیں کہ جیسی غزل ہے فی الفور ویسی تشریح پیش کی جائے۔۔۔
تو عرض کیا ہے (اگلے مراسلے میں۔۔۔)
 

سید عمران

محفلین
جن کو دوست سمجھتے تھے وہ دوست نما کہلاتے تھے
ہم میں کچھ اہلِ دل بھی اہلِ دنیا کہلاتے تھے
یہاں شاعر ہکا بکا ہو کر یہ کہنے کی کوشش کررہا ہے کہ اے عزیزان من، ہم وطن۔۔۔
آپ یہاں جسے دوست سمجھنے جارہے ہیں وہ اصل میں دوست نہیں ہے بلکہ دوست نما ہے۔۔۔
بولے تو، دوست نما دشمن ہے۔۔۔
شاعر اس دوست نما دشمن کے بارے میں مزید ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ۔۔۔
ہم میں کچھ لوگ ہیں جو خود کو اہل دل کہتے ہیں حالاں کہ اصل میں یہ اہل دنیا ہیں جو عمر میں ایک بار بھی محض ایک مہینہ کی سیلری مخلص ترین لوگوں کے قدموں پہ نچھاور کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔۔۔
حد ہے ان کے اہل دنیا ہونے کی بھی!!!
:mad::mad::mad:
 

سید عمران

محفلین
لوگو ایک زمانہ تھا جب ہم کیا کیا کہلاتے تھے
دردِ آشوب سے پہلے ہم تنہا تنہا کہلاتے تھے
اس شعر میں شاعر ایک بار پھر اسی دوست نما دشمن کی طرف اشارے کرکرکے کہہ رہا ہے کہ۔۔۔
لوگو ایک زمانہ تھا جب ہمیں کوئی نہیں پوچھتا تھا، تعریفیں تو کیا دشنام کے لائق بھی نہیں سمجھتا تھا۔۔۔
پھر دھیرے دھیرے ہم دبے دبے لہجوں میں، ڈھکے چھپے الفاظ کے ساتھ احمق، پاگل اور نہ جانے کیا کیا کہلانے لگے۔۔۔
اور اب تو یہ زمانہ آگیا ہے کہ لوگوں کی شرم و حیا پانی میں بلکہ ایک بے وثوق ذریعہ کے مطابق تیل لینی چلی گئی ۔۔۔
اب کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتا۔۔۔
براہ راست ہمارا نام لے لے کے، لے لے کے ہمیں جو چاہے سناتا جاتا ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
ہم تو دیارِ جاناں کو کہتے ہیں دیارِ جاناں بس
پہلے دلداروں کے قریے شہرِ سبا کہلاتے تھے
شعر ہذا میں شاعر وہی جانے مانے دوست نما دشمن کی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ۔۔۔
اس دوست نما دشمن کی ایک جاناں تھی جو صرف لوڈ شیڈنگ میں ہی گھر سے باہر آتی تھی۔۔۔
یہ صاحب جو لوڈ شیڈنگ کی ٹائمنگ سے بخوبی آگاہ تھے اور جاناں کی تاک میں رہتے تھے پیچھے پیچھے چلے آتے۔۔۔
ایک دن جاناں کے روبرو ہوئے تو وہ بھی دوبدو ہوگئی۔۔۔
بڑی مشکل سے صرف دو باتیں پتا چلیں ۔۔۔
دوسری یہ کہ جاناں کے شہر کا نام سبا تھا جو موصوف ان کا اپنا نام سمجھ بیٹھے۔۔۔
اور پہلی یہ کہ انہیں لگا کہ جاناں کسی دوسرے دیار سے آئی تھی۔۔۔
جاناں نے بھی ان کی غلط فہمی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور دیار کا جرمن زبان میں خاصا مشکل نام بتادیا۔۔۔
چوں کہ یہ نام انہیں مشکل لگا چناں چہ ان کی زبان پہ نہ چڑھ سکا۔۔۔
تس پہ اپنا سے منہ لے کر بولے۔۔۔
خاکم بدہن، اے جاناں! ہم تو آپ کے دیار کو بس دیارِ جاناں کے نام سے پکاریں گے۔۔۔
یوں ان صاحب کی عزت بھی رہ گئی اور سبا بھی پٹ گئی!!!
 

سید عمران

محفلین
جب سے فرازؔ تخلص رکھا ملکوں ملکوں رسوا ہیں
ورنہ ہم بھی اوّل اوّل احمد شا کہلاتے تھے
یوں تو غزل خاصی طویل ہے جس میں محض یاوہ گوئی کے علاوہ کچھ نہیں دھرا۔۔۔
اس لیے ہم ساری غزل قطع کرتے ہوئے براہ راست مقطع پر آتے ہیں۔۔۔
اس شعر میں شاعر اپنی محذوف داستاں کو مخفی رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاہم اسے افادہ عام کے لیے پیش کیا جاتا ہے تاکہ مقطع کا پس منظر واضح ہوسکے۔۔۔
اصل میں شاعر اپنے شہر کا نامی گرامی بینک لٹیرا تھا۔۔۔
یہ اس قدر بدنام ہوچکا تھا کہ شہر کے دیگر نامی گرامی لٹیرے اپنے ہونہار بچوں کا نام اس کے نام پر رکھنا باعثِ صد افتخار سمجھتے تھے۔۔۔
ادھر روز روز کے چھاپوں سے تنگ آکر ایک دن اس نے اپنا حلیہ بدلا، سر منڈایا ، شیو بڑھائی، نام بدل کر فراز رکھا اور دوسرے شہر روانہ ہوا۔۔۔
جیسے ہی نئے شہر میں اس کا قدم رنجہ وارد ہوا یہ ایک بہت بڑی واردات میں دھر لیا گیا۔۔۔
معلوم ہوا کہ اس شہر کا سب سے بڑا ڈکیت عین اسی حلیہ اور نام کا تھا۔۔۔
بس پھر کیا تھا شومئ قسمت اس کے پکڑے جانے کی خوش خبریوں میں اخباروں کی ضمیمے کے ضمیمے نکلنے لگے، ٹی ویوں پر بینک لاکرز بریک کرتے وقت کی بریکنگ نیوز چلنے لگیں۔۔۔
یہ خبریں ساری دنیا میں نشر ہوئیں یوں وہ ملکوں ملکوں بدنام ہوگیا۔۔۔
اب وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھا سوچ رہا ہے کہ فراز نام رکھنا میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی۔۔۔
اس سے تو پہلے والا نام ہی اچھا تھا جو۔۔۔
احمق شاہ تھا!!!
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
دوسری یہ کہ جاناں کے شہر کا نام سبا تھا جو موصوف ان کا اپنا نام سمجھ بیٹھے۔۔۔

جاناں نے بھی ان کی غلط فہمی کا ناجائز فائدہ اٹھایا
اچھا!!!! 🤔
یہ وہی "سبا" ہے۔ جس کے ہمیشہ میسج آیا کرتے تھے۔ اور ہمیشہ ایزی-لوڈ کے جھانسے میں اچھے خاصے بابوں کو بھی پھانس لیا کرتی تھی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جن کو دوست سمجھتے تھے وہ دوست نما کہلاتے تھے
ہم میں کچھ اہلِ دل بھی اہلِ دنیا کہلاتے تھے

لوگو ایک زمانہ تھا جب ہم کیا کیا کہلاتے تھے
دردِ آشوب سے پہلے ہم تنہا تنہا کہلاتے تھے

جتنے بھی محبوب تھے ان کو عہد شکن یاروں نہ کہا
جتنے بھی عشاق تھے سارے اہلِ وفا کہلاتے تھے

ہم تو دیارِ جاناں کو کہتے ہیں دیارِ جاناں بس
پہلے دلداروں کے قریے شہرِ سبا کہلاتے تھے

تیرے لئے اب کیوں نہ کوئی تازہ تشبیہ تلاش کریں
چاند فسانہ تھا تو دلبر ماہ لقا کہلاتے تھے

تیرے خرام کو نسبت دیتے کبکِ دری کی چال سے لوگ
گل جب چاک گریباں ہوتے تیری قبا کہلاتے تھے

آؤ خاک سے رشتہ جوڑیں، وہم فلک افلاک ہوئے
ہاتھ قلم ہونے سے پہلے دستِ دعا کہلاتے تھے

اپنی ویراں آنکھوں کا اب کس سے حال احوال کہیں
اب جو صحرا دیکھتے ہو آگے دریا کہلاتے تھے

جو نایافت تھی اُس خوشبو کی کھوج میں ہم صحرا صحرا
لہو لہان پھرا کرتے تھے آبلہ پا کہلاتے تھے

دل پاگل تھا یونہی پکارے جاتا تھا جاں جاناں
پر جو بیت بھی ہم کہتے تھے ہوشربا کہلاتے تھے

بے آواز گلی کوچوں میں عشق دہائی دیتا تھا
بستی بستی اہلِ نوا زنجیر بپا کہلاتے تھے

گلیوں گلیوں لئے پھرے نابینا شہر میں آئینہ
شاعر تھے پر شعر اپنے حرفِ عیسا کہلاتے تھے

پس انداز سبھی موسم تھے اہلِ چمن کے توشے میں
عہدِ خزاں کے جھونکے بھی جب بادِ صبا کہلاتے تھے

اب بھی خوابِ گل ہے پریشاں اب بھی اسیر عنادل ہیں
کل بھی باغ میں گلچیں اور صیاد خدا کہلاتے تھے

غزل بہانہ کرتے کرتے لفظ ہی بے توقیر ہوئے
سازِ سخن کو بھول چکے جو نغمہ سرا کہلاتے تھے

جب سے فرازؔ تخلص رکھا ملکوں ملکوں رسوا ہیں
ورنہ ہم بھی اوّل اوّل احمد شا کہلاتے تھے

کلام تو برا نہیں ہے۔ وزن میں بھی معلوم ہوتا ہے۔

اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس غزل میں فراز کی تقریباً سبھی کتابوں کے نام بھی شامل ہیں۔

کوئی بعید نہیں کہ یہ احمد فراز کا ہی کلام ہو۔ احمد فراز کا اصلی نام سید احمد شاہ تھا۔
 

سیما علی

لائبریرین
اصل میں شاعر اپنے شہر کا نامی گرامی بینک لٹیرا تھا۔۔۔
یہ اس قدر بدنام ہوچکا تھا کہ شہر کے دیگر نامی گرامی لٹیرے اپنے ہونہار بچوں کا نام اس کے نام پر رکھنا باعثِ صد افتخار سمجھتے تھے۔۔۔
ادھر روز روز کے چھاپوں سے تنگ آکر ایک دن اس نے اپنا حلیہ بدلا، سر منڈایا ، شیو بڑھائی، نام بدل کر فراز رکھا اور دوسرے شہر روانہ ہوا۔۔۔
بہترین تشریح یہ لٹیرے کی کیٹیگری پر پورے اُترتے ہیں ۔۔۔اور وہ دراصل اُن لوگوں میں سے ہے جو کہتے ہیں کہ بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا 🤓
 

سید عمران

محفلین
کلام تو برا نہیں ہے۔ وزن میں بھی معلوم ہوتا ہے۔

اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس غزل میں فراز کی تقریباً سبھی کتابوں کے نام بھی شامل ہیں۔

کوئی بعید نہیں کہ یہ احمد فراز کا ہی کلام ہو۔ احمد فراز کا اصلی نام سید احمد شاہ تھا۔
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔۔۔
یہ باتیں پہلے کرنے کی تھیں۔۔۔
اب تو شامیانے اجڑ گئے دل کے!!!
 
Top