جنگی چال

میں سو سے زیادہ جنگوں میں شریک ہوا، میرے جسم میں ایک بالشت برابر بھی ایسی جگہ نہیں کہ جہاں تیر، تلوار یا نیزے کا زخم نہ ہو، اس کے باوجود میں اپنے بستر پر مررہا ہوں، بزدلوں کی آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوں اور میرے لیے لا الہ الا اللہ سے زیادہ کوئی عمل بھی امید افزا نہیں، میں اسی کو ڈھال بنائے ہوئے ہوں۔
یہ وہ تاریخی الفاظ ہیں جو مرنے سے پہلے ایک ایسے بہادر سپاہی کی زبان سے ادا ہوئے جس کی ساری زندگی اسلام کی خاطر جہاد کرتے ہوئے بسر ہوئی جنہوں نے جنگ موتہ میں مسلمانوں کی فتح میں اہم کردار ادا کیا جس میں ان کے ہاتھوں سے نو تلواریں ٹوٹیں، جنہوں نے مسلمہ کذاب کا خاتمہ کیا جنہوں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عزی نامی بت کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور یہی وہ صاحب ہیں جنہیں سریہ موتہ کے موقع پر سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا لقب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا، یہ مبارک ذکر ابو سلیمان حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بہت بہادری اور جرات سے نوازا تھا۔اپنے قبول اسلام کا واقعہ خود حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ہم جمع ہو کر مدینہ پہنچے، یہ ہجرت کا آٹھواں سال اور صفر کی یکم تاریخ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری آمد کی اطلاع ہوچکی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش تھے، میں نے عمدہ کپڑے پہنے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا، راستے میں میرا بھائی ملا اور کہنے لگا جلدی کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے آنے کی اطلاع ہوچکی ہے اور وہ تمہارا انتظار کررہے ہیں، میں تیزی سے چلا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ کر سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت محبت سے جواب دیا، پھر میں نے کلمہ پڑھا، پھر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ جس نے تمہیں ہدایت دی۔ مجھے تمہاری عقل کے متعلق یہی خیال تھا کہ وہ خیر کی طرف تمہاری رہنمائی کرے گی۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو معلوم ہے کہ میں جنگوں میں حق سے منہ موڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرتا رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے معاف فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسلام پہلے کی تمام غلطیوں کو معاف فرمادیتا ہے لیکن حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے اصرار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے ان کے لیے دعا فرمائی۔حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے والدین کا شمار قریش کے سرداروں میں ہوتا تھا، والد کا تعلق قبیلہ بنو مخزوم سے تھا، اسی قبیلہ کے پاس زمانہ جاہلیت میں جنگی سامان اور جنگی گھوڑوں کی حفاظت و دیکھ بھال کی ذمہ داری تھی، اسی وجہ سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جاہلیت اور اسلام دونوں ادوار میں اہم جنگوں میں شریک رہے اور جنگی لشکروں کی کامیاب قیادت بھی کرتے رہے۔
آپ رضی اللہ عنہ کا حلیہ مبارک سیرت کی کتابوں میں جو بتایا گیا ہے اس کے مطابق حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ لمبے قد، بھاری جسم، چوڑے اور کشادہ سینہ کے مالک تھے اور لوگوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے، گویا ایک طرف تو بچپن ہی سے جنگی طور طریقوں سے واقفیت تھی تو دوسری طرف ایک مضبوط جسم کے مالک بھی، مگر ایک اور چیز جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام میں نمایاں کرتی ہے وہ ان کی بہادری اور شجاعت ہے، حضرت قیس رضی اللہ عنہ بن حازم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ جہاد نے مجھے کثرت قرات قرآن سے باز رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی بہادری کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ان کے پاس ایک زہر لایا گیا، پوچھا یہ کیا ہے۔ لوگوں نے بتایا زہر ہے۔ بسم اللہ پڑھ کر اسے پی گئے جسے کسی نے اپنے اشعار میں اس طرح بیان کیا ہے کہ:بن ولید سم قاتل کو اس طرح پی گئے جس طرح پیاسا انسان ٹھنڈے خوشگوار پانی کو منہ سے لگا کر پیتا ہے۔
جس طرح جنگی معرکوں میں بہادری سے لڑنا اچھا سمجھا جاتا ہے اسی طرح دشمن کو شک و شبہات میں ڈالنا بھی ایک کامیاب جنگی چال سمجھی جاتی ہے، جیسا کہ سریہ موتہ میں پیش آیا، اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر بنایا اور فرمایا اگر زید رضی اللہ عنہ شہید ہوجائیں تو جعفر رضی اللہ عنہ امیر ہوں گے اگر جعفر رضی اللہ عنہ شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ امیر لشکر ہوں گے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک سفید جھنڈا بنا کر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو دیا۔ موتہ کے مقام پر دونوں لشکروں کا آپس میں ٹکراﺅ ہوا اور زبردست مقابلہ ہوا، مسلمانوں کی تعداد تین ہزار تھی اور ان کے مقابلے میں کفار کی تعداد دو لاکھ تھی لیکن مسلمان کبھی زیادہ تعداد میں ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ ایمان کی طاقت پر فتح مند ہوئے۔
مقابلہ میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے پھر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، انہوں نے جھنڈا لیا تو وہ بھی شہید ہوگئے، جب عبداللہ بن رواحی رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوگئے تو مسلمان پریشان ہوگئے اور پیچھے ہٹنے لگے، ایسے میں حضرت ثابت بن اقرم نے آگے بڑھ کر جھنڈا اٹھایا اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو تھمادیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا لیا اور حملہ آور ہوئے اور ثابت قدمی سے مقابلہ کیا، مشرکین کی ایک بڑی تعداد کو حضرت خالد بن ولید اور ان کے ساتھیوں نے ختم کر ڈالا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے اس دن نو تلواریں ٹوٹیں۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنگی مہارت کو کام میں لاکر لشکر اسلام کو علیحدہ کرکے آنے والی شکست سے بچالیا، ہوا کچھ یوں کہ رات ہوچکی تھی، اس فرصت میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے لشکر کی ترتیب بدل دی۔ جب صبح ہوئی دشمن نے مسلمانوں کی ترتیب بدلی ہوئی دیکھی اور شور اور ہتھیاروں کی جھنکار سنی تو سمجھے کہ مدد آگئی، مشرکین خوفزدہ ہوکر بھاگنے لگے، مشرکین کے بھاگنے کے دوران بھی مسلمان ان سے لڑتے رہے، اس طرح مشرکین بڑی تعداد میں مارے گئے اور باقی نے میدان جنگ سے بھاگ کر اپنی جان بچائی، جنگ ختم ہوئی،جنگ کے اس دانشمندانہ طریقے پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی بہادری کا اظہار بھی فرمایا اور حوصلہ افزائی بھی کی۔ اسی طرح فتح مکہ میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ شریک رہے اور میمنہ (دائیں بازو کی فوج) کے قائد تھے، اس موقع پر انہوں نے بعض مشرکین سے لڑائی بھی کی جو اسلامی لشکر کو مکہ میں داخل ہونے سے روکنا چاہتے تھے، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہمیشہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے غزوہ حنین میں شرکت کی، پھرہجرت کے نویں سال پانچ رجب کو آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے گئے اس کے بعد غزوہ طائف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی اور جہاد جاری رہا، اس دور میں ایک شخص مسلمہ بن کذاب نے نبی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حکم پر یمامہ کی جانب بڑھے جہاں مسلمہ کذاب رہتا تھا۔ دونوں گروہوں میں مقابلہ ہوا، پہلے تو مسلمانوں کو شکست ہوئی مگر مسلمانوں نے پھر بھرپور حملہ کیا اور مقابلہ کرتے ہوئے اس باغ میں داخل ہوئے جس میں مسلمہ کذاب اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا اور سب کو جہنم رسید کیا۔ اسی طرح بے شمار فتوحات اور جہادی تحریکوں میں مصروف رہے، آپ کے ہاتھوں تیس سے زائد شہر فتح ہوئے۔حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی، جب پیاری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کے موقع پر اپنے سر کے بال اتروائے اور لوگ بال لینے کے لیے جھپٹ پڑے تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی کے بال لیے اور انہیں اپنی ٹوپی میں سی لیا، جنگ یرموک میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی یہ ٹوپی گم ہوگئی مگر تلاش کرنے پر مل گئی، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس جنگ میں میرے پاس یہ ٹوپی ہوتی ہے اللہ اس میں مجھے فتح عطا فرماتے ہیں، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی آپ کی قدر دانی فرماتے تھے اور لوگوں کو بھی ان کا لحاظ رکھنے کی ہدایت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ لوگوںسے فرمایا۔ خالد کو تم لوگ کسی قسم کی تکلیف نہ دو کیوں کہ وہ خدا کی تلوار ہے جس کو اس نے کفار پر کھینچا ہے۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ایک سو اٹھارہ احادیث مروی ہیں چوں کہ شروع ہی سے بطور سپاہی زندگی بسر کی اس لیے آپ رضی اللہ عنہ کے پاس جنگی ساز و سامان بہت تھا جسے اسلام لانے کے بعد راہ خدا میں وقف کردیا تھا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی وفات اکیس ہجری حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ہوئی۔ ساٹھ سال زندہ رہے سواسو جنگوں میں شرکت کی اور بہادروں کی ایک بڑی جماعت کو قتل کیا، جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو اپنا گھوڑا، اسلحہ اور غلام بھی اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابو سلیمان پر اللہ اپنا رحم فرمائے۔ وہ بالکل ہمارے گمان کے مطابق تھے۔
بشکریہ فیس بک
 
Top