جنوبی ایشیا کے ملک دنیا میں سب سے زیادہ کرپٹ
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بدھ کو اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوبی ایشیا دنیا کا سب سے بے ایمان خطہ ہے اور اس خطے کے ملکوں کی حکومتوں کو انسداد بدعنوانی کے اداروں کو مضبوط کرنے، سیاسی مداخلت کم کرنے اور بدعنوانی کی نشاندھی کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق دنیا بھر کے ملکوں میں کرپشن اور بدعنوانی پر نظر رکھنے والے اس بین الاقوامی ادارے نے کہا ہے کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، مالدیپ، اور سری لنکا میں انسداد بدعنوانی کی کاوشیں شدید مسائل کا شکار ہیں۔
ٹرانسپیرنسی کے ایشیا اور بحرالکاہل کے ملکوں کے ریجنل ڈائریکٹر سریساک پلپٹ نے کہا ہے کہ :’ ان کے تجزیوں سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جنوبی ایشیا کرپشن کے اعتبار سے دنیا کا بدترین خطہ ہے۔‘
بھارت میں فورجی کے ایک گھپلے میں کئی ارب ڈالر کی مبینہ کرپش کی خریں آتی رہی ہیں
تنظیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں میں انسداد بدعنوانی یا کرپش روکنے کے ادارے موجود ہیں لیکن ان ملکوں کی حکومتیں ان اداروں میں اہلکاروں کی تعیناتیوں اور ان اداروں کی مالی مجبوریوں کے ذریعے ان کے ہاتھ باندھے رکھتی ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ان ملکوں کی حکومتوں میں وہ سیاسی عزم ہی نہیں ہے کہ وہ قانون کو حرکت میں لائیں اور اس ہی وجہ سے کرپش روکنے کے تمام اقدامات بے اثر ہی رہ جاتے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے ان چھ ملکوں کی حکومتوں پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہے وہ انسداد بدعنوانی کے اداروں اور عدلیہ کو مستحکم بنانے کے لیے ان اداروں کے سربراہوں اور دیگر عملے کی تعیناتیوں کے عمل کو آزادانہ اور شفاف بنائیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سیاسی مداخلت اور دباؤ کے باعث یہ ادارے منصفانہ طریقہ سے تحقیقات نہیں کر سکتے اور جنوبی ایشیا کے ملکوں میں یہ ادارے اس لیے بالکل بے اثر ہیں کہ انھیں تحقیقات شروع کرنے سے پہلے سرکار کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
پاکستان میں معلومات تک رسائی کا قانون زیرِ غور ہے جب کہ سری لنکا میں یہ سرے سے ہے ہیں نہیں۔ بھارت کی حکومت معلومات تک رسائی کے اپنے قانون میں ترمیم کر کے اس کے اثر کو کم کرنا چاہ رہی ہے کیونکہ یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ سخت قانون ہے۔
پلپٹ نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بھارت کی نئی حکومت پر نظر رکھے گی اور دیکھے گی کہ وہ بدعنوانی ختم کرنے کے اپنے وعدے کس حد تک پورے کرتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بھارت کی حکومت محتسب کا قانون جو گزشتہ سال منظور کیا گیا تھا اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اور بدعنوانی کے دیگر قوانین کو منظور کرے جن میں ’وسل بلوئر‘ کا قانون بھی شامل ہے جو جو کسی ادارے میں بدعنوانی کی نشاندھی کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بدھ کو اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوبی ایشیا دنیا کا سب سے بے ایمان خطہ ہے اور اس خطے کے ملکوں کی حکومتوں کو انسداد بدعنوانی کے اداروں کو مضبوط کرنے، سیاسی مداخلت کم کرنے اور بدعنوانی کی نشاندھی کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق دنیا بھر کے ملکوں میں کرپشن اور بدعنوانی پر نظر رکھنے والے اس بین الاقوامی ادارے نے کہا ہے کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، مالدیپ، اور سری لنکا میں انسداد بدعنوانی کی کاوشیں شدید مسائل کا شکار ہیں۔
ٹرانسپیرنسی کے ایشیا اور بحرالکاہل کے ملکوں کے ریجنل ڈائریکٹر سریساک پلپٹ نے کہا ہے کہ :’ ان کے تجزیوں سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جنوبی ایشیا کرپشن کے اعتبار سے دنیا کا بدترین خطہ ہے۔‘
بھارت میں فورجی کے ایک گھپلے میں کئی ارب ڈالر کی مبینہ کرپش کی خریں آتی رہی ہیں
تنظیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں میں انسداد بدعنوانی یا کرپش روکنے کے ادارے موجود ہیں لیکن ان ملکوں کی حکومتیں ان اداروں میں اہلکاروں کی تعیناتیوں اور ان اداروں کی مالی مجبوریوں کے ذریعے ان کے ہاتھ باندھے رکھتی ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ان ملکوں کی حکومتوں میں وہ سیاسی عزم ہی نہیں ہے کہ وہ قانون کو حرکت میں لائیں اور اس ہی وجہ سے کرپش روکنے کے تمام اقدامات بے اثر ہی رہ جاتے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے ان چھ ملکوں کی حکومتوں پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہے وہ انسداد بدعنوانی کے اداروں اور عدلیہ کو مستحکم بنانے کے لیے ان اداروں کے سربراہوں اور دیگر عملے کی تعیناتیوں کے عمل کو آزادانہ اور شفاف بنائیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سیاسی مداخلت اور دباؤ کے باعث یہ ادارے منصفانہ طریقہ سے تحقیقات نہیں کر سکتے اور جنوبی ایشیا کے ملکوں میں یہ ادارے اس لیے بالکل بے اثر ہیں کہ انھیں تحقیقات شروع کرنے سے پہلے سرکار کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
پاکستان میں معلومات تک رسائی کا قانون زیرِ غور ہے جب کہ سری لنکا میں یہ سرے سے ہے ہیں نہیں۔ بھارت کی حکومت معلومات تک رسائی کے اپنے قانون میں ترمیم کر کے اس کے اثر کو کم کرنا چاہ رہی ہے کیونکہ یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ سخت قانون ہے۔
پلپٹ نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بھارت کی نئی حکومت پر نظر رکھے گی اور دیکھے گی کہ وہ بدعنوانی ختم کرنے کے اپنے وعدے کس حد تک پورے کرتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بھارت کی حکومت محتسب کا قانون جو گزشتہ سال منظور کیا گیا تھا اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اور بدعنوانی کے دیگر قوانین کو منظور کرے جن میں ’وسل بلوئر‘ کا قانون بھی شامل ہے جو جو کسی ادارے میں بدعنوانی کی نشاندھی کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔