سترھویں سالگرہ جلے تلے خیال

عبد الرحمن

لائبریرین
بس میں بیٹھے بیٹھے مسلسل میں کچھ ایسا سوچنے کی کوشش کر رہا تھا جس کی بنا پر میں ایک آدھ کہانی وغیرہ لکھ سکوں۔ لیکن میرے لیے کہانی گھڑنا اتنا ہی آسان ہوتا تو مجھے اتنا سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی جتنی اس وقت ہو رہی تھی۔

خیر مسلسل پندرہ بیس منٹ کی دماغی ورزش کے بعد جب بے ربط خیالات کا تانتا بندھنا شروع ہوا تو یک دم بس نے زور سے بریک لگائی۔ مجھ سمیت بیشتر مسافر پہلے اپنی سیٹوں پر پوری قوت سے بے ارادہ آگے کو جھکے پھر اتنی ہی قوت سے پیچھے سیٹ کی ٹیک سے جا لگے۔

اگلے ہی لمحے بس اور برابر والی گاڑی کے درمیان مغلظات کا تبادلہ ہوا اور ایک آدھ منٹ میں ہی معاملہ رفع دفع ہو کر معمول پر آگیا۔ شکر ہے لڑائی زیادہ نہیں بڑھی لیکن میں جن تصورات کو بنیاد بنا کر اپنی تحریر کی عمارت تعمیر کر رہا تھا وہ آن واحد میں ڈھے گئی۔

خیالات کا سلسلہ دوبارہ وہیں سے جوڑنے کی کوشش کی جہاں سے ٹوٹا تھا لیکن بات نہ بن سکی۔ تاہم اس تگ و دو کے دوران میں ایک اور خیال برآمد ہوا۔ جو پچھلے والے سے زیادہ جان دار معلوم ہوا۔

دریں اثنا یہ ستم ہوا کہ بس کا گزر ایک کچرا کنڈی سے ہوا جس نے تمام مسافروں کا دماغ چکرا کر رکھ دیا۔ بس اور کنڈکٹر تو شاید اس عذابِ صغیر یا حقیر سے واقف یا شاید اس کے عادی تھے لیکن دیگر سواروں کی درگت بن گئی۔ اس تکلیف سے نکلتے نکلتے اور معمول پر آتے آتے چند منٹ لگے۔ تاہم خراب بو کے اثرات دور تک محسوس ہو رہے تھے۔ لیکن اتنا ضرور تھا کہ اب حواس قابو سے باہر نہیں جا رہے تھے۔

جب سانس پوری طرح بحال ہوا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پھر سے عود کر آئی تو معلوم ہوا کہ میں اپنا گزشتہ خیال بھی محفوظ نہیں رکھ سکا تھا اور وہ بھی اس بد بو کی نذر ہو گیا تھا۔

پھر سے اپنی ہمت بندھائی اور پھر سے سوچ کے سمندر میں غوطہ لگا دیا۔ ایسا لگا ہی تھا کہ کسی نتیجے پر پہنچنے والا ہوں کہ حال ہی میں تعمیر ہونے والے ایک روڈ کے گہرے گڑھے نے یک دم بس کو بری طرح اچھال دیا۔ اس گڈے نے مجھے اپنی جگہ سے ہوا میں اوپر اڑاتے ہوئے چھت سے ٹکرایا اور واپس اپنی ہی سیٹ پر پٹخ کر رکھ دیا۔ یہ ساری کارروائی لمحے کے آخر حصے میں پوری ہوئی تھی۔ یہ افتاد پچھلی دو نا گہانی کی طرح اچانک تھی لیکن کم دورانیہ رکھتی تھی۔ اس کے باوجود میرے خیالات کا سلسلہ پھر منقطع ہو گیا۔ تاہم چھت سے جو سر ٹکرایا تھا اسے سہلاتے سہلاتے شاید اتنا ہی وقت لگا جتنا پچھلے دو واقعات کے شروع اور ختم ہونے میں لگا تھا۔ ساتھ ساتھ میں مسلسل یہ بھی سوچتا رہا تھا کہ ہمیں ملنے والے بیشتر فنڈز اور خون پسینے کی کمائی سے ہمارا دیا گیا ٹیکس شہر کی سڑک پر کم اور ان کے بینک اکاؤنٹس کے ٹرک میں زیادہ جاتا ہے۔

میں بھی گویا تہیہ کیے بیٹھا تھا کہ آئیڈیا ملے بنا ہار نہیں مانوں گا۔ چاہے اپنے گھر سے ایک اسٹاپ آگے ہی کیوں نہ اترنا پڑے۔ اس لیے ایک بار پھر خیالات کی کان کھودنے میں جت گیا تاکہ گوہر نایاب کا حصول ہو جائے۔

آمد کچھ کچھ ہو ہی رہی تھی، بات سے بات بننے ہی لگی تھی کہ اچانک دم گھٹنا شروع ہو گیا۔ یہ احساس ہوتے ہی گھبرا اور ہڑبڑا کر جیسے ہی ادھر ادھر دیکھا تو معلوم ہوا کہ میں تو پوری طرح ادھر ادھر دیکھنے کے بھی قابل نہیں ہوں۔ بس اوور لوڈڈ تھی۔ آدمی پر آدمی ٹوٹ رہا تھا۔ کھڑا ہوا پیسنجر تو پریشان تھا ہی بیٹھا ہوا بھی لمبے لمبے سانس لے کر اپنی آکسیجن بحال رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں جو قوی ارادہ کیے بیٹھا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے چاہے ایک اسٹاپ آگے بھی آنا پڑے اپنی نئی کہانی کا آئیڈیا لیے بنا بس سے نہیں اتروں گا۔ ہاتھ پاؤں بری طرح چلاتا ہوا گیٹ تک پہنچا اور ایک اسٹاپ پہلے ہی بس سے اتر گیا۔

اس بات سے قطع نظر کہ اب گھر پہنچنے میں دیر ہو جائے گی، پیدل چلتے ہوئے بے حد آرام محسوس ہو رہا تھا۔ تاہم اس مرتبہ اپنی مرضی کا ماحول ملنے کے با وصف میں نے کچھ بھی سوچنے سے توبہ کر لی تھی۔ خالی الذہنی کے عالم میں چل رہا تھا اور بے پناہ سکون محسوس کر رہا تھا۔ لیکن یہ خیال مجھے بار بار آ رہا تھا بلکہ ستا رہا تھا کہ اگر ملک سے یہ سب مسائل ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں جو کہ بہت پہلے ہو جانے چاہیے تھے تو روز پیش آنے والے ان آلام پر دل جلانے کے بجائے شاید کچھ اچھا اور تعمیری لکھنے یا سوچنے میں اس قدر دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت خوب۔
بالکل درست فرمایا آپ نے۔ تعمیری سوچ بنیادی ضروریات کی نذر ہو گئیں جب تک ذہن ایسی سطحی سوچوں سے غنی نہیں ہو جاتا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ مسبب الاسباب سے دعا ہے کہ ہمیں مخلص اور قابل قیادت اور دیانت دار معاشرے میں بدل دے۔ آمین
 

محمداحمد

لائبریرین
سالگرہ کے مہینے کے آخری دن کے آخری گھنٹے کے آخری منٹ میں بہت خوب اینٹری دی ہے آپ نے محفل پر۔ :) :) :)۔

ماشاء اللہ!
 

محمداحمد

لائبریرین
لیکن یہ خیال مجھے بار بار آ رہا تھا بلکہ ستا رہا تھا کہ اگر ملک سے یہ سب مسائل ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں جو کہ بہت پہلے ہو جانے چاہیے تھے تو روز پیش آنے والے ان آلام پر دل جلانے کے بجائے شاید کچھ اچھا اور تعمیری لکھنے یا سوچنے میں اس قدر دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

واقعی!

ہم لوگ مصائب میں اس قدر گھرے ہیں کہ معمولات سے سرِ مو انحراف کرنا بھی بہت دشوار معلوم ہوتا ہے۔ اور ایسے میں نئے خیالات کی کھوج میں نکلنا اور بھی دشوار کام ہے۔
 
بس میں بیٹھے بیٹھے مسلسل میں کچھ ایسا سوچنے کی کوشش کر رہا تھا جس کی بنا پر میں ایک آدھ کہانی وغیرہ لکھ سکوں۔ لیکن میرے لیے کہانی گھڑنا اتنا ہی آسان ہوتا تو مجھے اتنا سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی جتنی اس وقت ہو رہی تھی۔

خیر مسلسل پندرہ بیس منٹ کی دماغی ورزش کے بعد جب بے ربط خیالات کا تانتا بندھنا شروع ہوا تو یک دم بس نے زور سے بریک لگائی۔ مجھ سمیت بیشتر مسافر پہلے اپنی سیٹوں پر پوری قوت سے بے ارادہ آگے کو جھکے پھر اتنی ہی قوت سے پیچھے سیٹ کی ٹیک سے جا لگے۔

اگلے ہی لمحے بس اور برابر والی گاڑی کے درمیان مغلظات کا تبادلہ ہوا اور ایک آدھ منٹ میں ہی معاملہ رفع دفع ہو کر معمول پر آگیا۔ شکر ہے لڑائی زیادہ نہیں بڑھی لیکن میں جن تصورات کو بنیاد بنا کر اپنی تحریر کی عمارت تعمیر کر رہا تھا وہ آن واحد میں ڈھے گئی۔

خیالات کا سلسلہ دوبارہ وہیں سے جوڑنے کی کوشش کی جہاں سے ٹوٹا تھا لیکن بات نہ بن سکی۔ تاہم اس تگ و دو کے دوران میں ایک اور خیال برآمد ہوا۔ جو پچھلے والے سے زیادہ جان دار معلوم ہوا۔

دریں اثنا یہ ستم ہوا کہ بس کا گزر ایک کچرا کنڈی سے ہوا جس نے تمام مسافروں کا دماغ چکرا کر رکھ دیا۔ بس اور کنڈکٹر تو شاید اس عذابِ صغیر یا حقیر سے واقف یا شاید اس کے عادی تھے لیکن دیگر سواروں کی درگت بن گئی۔ اس تکلیف سے نکلتے نکلتے اور معمول پر آتے آتے چند منٹ لگے۔ تاہم خراب بو کے اثرات دور تک محسوس ہو رہے تھے۔ لیکن اتنا ضرور تھا کہ اب حواس قابو سے باہر نہیں جا رہے تھے۔

جب سانس پوری طرح بحال ہوا اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پھر سے عود کر آئی تو معلوم ہوا کہ میں اپنا گزشتہ خیال بھی محفوظ نہیں رکھ سکا تھا اور وہ بھی اس بد بو کی نذر ہو گیا تھا۔

پھر سے اپنی ہمت بندھائی اور پھر سے سوچ کے سمندر میں غوطہ لگا دیا۔ ایسا لگا ہی تھا کہ کسی نتیجے پر پہنچنے والا ہوں کہ حال ہی میں تعمیر ہونے والے ایک روڈ کے گہرے گڑھے نے یک دم بس کو بری طرح اچھال دیا۔ اس گڈے نے مجھے اپنی جگہ سے ہوا میں اوپر اڑاتے ہوئے چھت سے ٹکرایا اور واپس اپنی ہی سیٹ پر پٹخ کر رکھ دیا۔ یہ ساری کارروائی لمحے کے آخر حصے میں پوری ہوئی تھی۔ یہ افتاد پچھلی دو نا گہانی کی طرح اچانک تھی لیکن کم دورانیہ رکھتی تھی۔ اس کے باوجود میرے خیالات کا سلسلہ پھر منقطع ہو گیا۔ تاہم چھت سے جو سر ٹکرایا تھا اسے سہلاتے سہلاتے شاید اتنا ہی وقت لگا جتنا پچھلے دو واقعات کے شروع اور ختم ہونے میں لگا تھا۔ ساتھ ساتھ میں مسلسل یہ بھی سوچتا رہا تھا کہ ہمیں ملنے والے بیشتر فنڈز اور خون پسینے کی کمائی سے ہمارا دیا گیا ٹیکس شہر کی سڑک پر کم اور ان کے بینک اکاؤنٹس کے ٹرک میں زیادہ جاتا ہے۔

میں بھی گویا تہیہ کیے بیٹھا تھا کہ آئیڈیا ملے بنا ہار نہیں مانوں گا۔ چاہے اپنے گھر سے ایک اسٹاپ آگے ہی کیوں نہ اترنا پڑے۔ اس لیے ایک بار پھر خیالات کی کان کھودنے میں جت گیا تاکہ گوہر نایاب کا حصول ہو جائے۔

آمد کچھ کچھ ہو ہی رہی تھی، بات سے بات بننے ہی لگی تھی کہ اچانک دم گھٹنا شروع ہو گیا۔ یہ احساس ہوتے ہی گھبرا اور ہڑبڑا کر جیسے ہی ادھر ادھر دیکھا تو معلوم ہوا کہ میں تو پوری طرح ادھر ادھر دیکھنے کے بھی قابل نہیں ہوں۔ بس اوور لوڈڈ تھی۔ آدمی پر آدمی ٹوٹ رہا تھا۔ کھڑا ہوا پیسنجر تو پریشان تھا ہی بیٹھا ہوا بھی لمبے لمبے سانس لے کر اپنی آکسیجن بحال رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں جو قوی ارادہ کیے بیٹھا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے چاہے ایک اسٹاپ آگے بھی آنا پڑے اپنی نئی کہانی کا آئیڈیا لیے بنا بس سے نہیں اتروں گا۔ ہاتھ پاؤں بری طرح چلاتا ہوا گیٹ تک پہنچا اور ایک اسٹاپ پہلے ہی بس سے اتر گیا۔

اس بات سے قطع نظر کہ اب گھر پہنچنے میں دیر ہو جائے گی، پیدل چلتے ہوئے بے حد آرام محسوس ہو رہا تھا۔ تاہم اس مرتبہ اپنی مرضی کا ماحول ملنے کے با وصف میں نے کچھ بھی سوچنے سے توبہ کر لی تھی۔ خالی الذہنی کے عالم میں چل رہا تھا اور بے پناہ سکون محسوس کر رہا تھا۔ لیکن یہ خیال مجھے بار بار آ رہا تھا بلکہ ستا رہا تھا کہ اگر ملک سے یہ سب مسائل ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں جو کہ بہت پہلے ہو جانے چاہیے تھے تو روز پیش آنے والے ان آلام پر دل جلانے کے بجائے شاید کچھ اچھا اور تعمیری لکھنے یا سوچنے میں اس قدر دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ابھی ابھی ہم نے محمد احمد بھائی کا لکھا ہوا بس کے سفر پر رپورتاژ پڑھا ہے اور اس کے نشے میں ہی تھے کہ بس کے سفر پر ایک اور رپورتاژ پڑھنے کا موقع مل گیا۔ خوبصورت خوبصورت!
 
Top