جدا ہے تیرا بانکپن ، نرالی سب سے شان ہے

فاخر

محفلین
غزل
فاخر

اے ساقی و نگار من، مرا تو میزبان ہے
بفضل ایزدی مرے لیے تو ارمغان ہے

اے میکدہ کے میزباں ! اے دلربا و دل نشیں
جدا ہے تیرا بانکپن ، نرالی سب سے شان ہے


مجھے تری شہنشہی کا کیوں نہ ہو گا اعتراف
کہ بالیقین ساقیا تو میرا حکمران ہے

یہ لب ترے ہیں میکدہ تو جام ہے بھرا ہوا
تو مستی و شباب کا کوئی حسیں نشان ہے

چہار سمت دلکشی تجھی سے ہے یہ دم بدم
کہ بزم کی ہے آبرو، تو شاعری کی جان ہے

فسون حسن سے جلا ملے سخن کو دلربا
اسد کی ہے غزل کوئی، تو میر کی زبان ہے

اے نازنیں ترے بدن کی ریختہ میں ہے نمود
کلیم کی تو گفتگو، جمیل کا بیان ہے

تو ناخدا مرے لیے تو زیست کی ہے آرزو
غرض کہ میرے مہرباں، تو ہی مرا جہان ہے

مرے لیے زمانے کی صعوبتوں میں آخرش
کوئی نہیں فقط تو ہی تو میرا سائبان ہے
 
آخری تدوین:
Top