جب بھی کرتا ہوں لگتی ہے ہر بات تنہا

فخرنوید

محفلین
جب بھی کرتا ہوں لگتی ہے ہر بات تنہا
گزارے ہیں برسوں میں نے دن رات تنہا

اک خلا ہے عزیزوں کی رفاقت کے باوجود
کر گئے ہیں کس طرح مجھے حالات تنہا

لپٹ گئے ہیں سبھی اند ھیرے کی لپیٹ میں
ہر کوئی سمجھے ہے مگر اپنی ہے زات تنہا

نہیں چاند ویراں ہے شب تاروں کے باوجود
جیسے ہو بن بارات کے دلہا تنہا

ملتے تھے کل تک جو سر راہ ہمیں
کیوں ہونے لگی ہے ان سے بات تنہا

جب الوداع کہتی ہیں وہ حسرت بھری نگاہیں
برستی ہے میری آنکھوں سے برسات تنہا
 

فخرنوید

محفلین
میرے غم کا فسانہ میرے دل کی کہانی
وہ آج سن لیں آکر میری زبانی

ہم نے ان کے غم کو دیل میں چھپا لیا
کہ غیر کی یہ عطا نہیں ہے اپنوں کی مہربانی

احباب پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا ““فخر““
ان آنسووں میں ہائے بہہ گٰئی میری جوانی

کاش زندگی میں ایک پتھر ہی پھینک دیتے
کیوں آج میری لحد پہ کرتے ہیں گل فشانی

تم ہی کہو ““ناز““ میں پھول نہیں تو کیا ہوں
کانٹوں کے ساتھ ہم نے گزاری ہے زندگانی​
 

فخرنوید

محفلین
آنکھوں سے میری اس لئے لالی نہیں جاتی
تیری یادوں سے کوئی خالی رات نہیں جاتی

اب ““ناز““ نا وہ موسم نا وہ رستے باقی
اس دل کی مگر خام خیالی نہیں جاتی

مانگے اگر تو ،تو جان بھی ہنس کر دے دوں
تیری تو کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی​
 

فخرنوید

محفلین
میرے دل کو تو نے بے قرار کیا

میرے دل کو تو نے بے قرار کیا
میرے چین کو تونے فرار کیا
میری نیند کو تو نے کوسوں پار کیا
میرے موسم تو نے بے بہار کیا
میری زندگی کو تونے لاچار کیا
آنکھوں کے تیر کو دل کے پار کیا
میری دھڑکنوں کو تونے بار کیا
میرے بدن کو تونے نار کیا
میرے پھول خوابوں کو تونے خار کیا
میرے چمن کو تونے شرار کیا
میرے جزبات کو تونے تاتار کیا
میری خوشی کو تونے غمگسار کیا
اے ““ناز““ کیسا تونے وار کیا
میری جیت کو تونے ہار کیا
 

فخرنوید

محفلین
میرے غم کا فسانہ میرے دل کی کہانی

میرے غم کا فسانہ میرے دل کی کہانی
وہ آج سن لیں آکر میری زبانی

ہم نے ان کے غم کو دیل میں چھپا لیا
کہ غیر کی یہ عطا نہیں ہے اپنوں کی مہربانی

احباب پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا "ناز"
ان آنسووں میں ہائے بہہ گٰئی میری جوانی

کاش زندگی میں ایک پتھر ہی پھینک دیتے
کیوں آج میری لحد پہ کرتے ہیں گل فشانی

تم ہی کہو ““ناز““ میں پھول نہیں تو کیا ہوں
کانٹوں کے ساتھ ہم نے گزاری ہے زندگانی
 
Top