جاگیر میں شامل

رشید حسرت

محفلین
نمی آنکھوں کی بھی محسُوس کی تحرِیر میں شامِل
کہ کاجل کی دِکھے ہے دھار سی تنوِیر میں شامِل

مُجھے پا بند کر لیتی کہاں زنجِیر میں دم تھا
تُمہاری زُلف کی اِک لَٹ رہی زنجِیر میں شامِل

عِمارت میں جو سِطوت ہے ہمارے دم قدم سے ہے
ازل سے ہے غرِیبوں کا لہُو تعمِیر میں شامِل

عدُو سے کوئی شِکوہ ہے، نہ ہی کوئی شِکایت ہے
رضا محبُوب کی بھی تھی مِری تعزِیر میں شامِل

مُقدّر نے بنایا ہے تماشا بے نوائی کا
جِسے خوابوں میں رکھا تھا نہِیں تعبِیر میں شامِل

مُجھے آساں نہِیں تھا زیر کر لینا جفاٶں سے
کِسی لہجے کی تلخی تھی جفا کے تِیر میں شامِل

سُنا کرتے تھے لہجے سے پتہ اِنساں کا چلتا ہے
غُرُورِ زر دِکھائی دے گیا تاثِیر میں شامِل

نجانے کون سے لمحے نصِیبا میرا پُھوٹا تھا
کبھی تھا شہسواروں میں، ابھی نخچِیر میں شامِل

گدا کے سر پہ جو ہے تاج وہ ہے اِنکساری کا
یہ کُچھ اشعار ہی تو ہیں، جو ہیں جاگِیر میں شامِل

ہمارے دِل کی دھڑکن اُن کی دھڑکن سے مُزیّن ہے
ہمارا غم بھی رہتا ہے غمِ کشمِیر میں شامِل

شِکَست ایسے نہِیں دیتے تھے کافِر کو مِرے آبا
کوئی جوشِ شہادت بھی تو تھا شمشِیر میں شامِل

مُبرّا کیسے کر سکتا ہُوں اپنے آپ کو لوگو
یقیناً میرے دِل کی تھی رضا تقصِیر میں شامِل

رشِیدؔ اِرشاد کی تعمِیل میں تو بھیج دیتا ہُوں
جو دِل کا حال ہے کیسے کرُوں تصوِیر میں شامِل


رشِید حسرتؔ
 
Top