جان کی دشمن پڑوسن ہوگئی تو کیا ہوا
زندگی اپنی اجیرن ہوگئی تو کیا ہوا
نصف بہتر مجھ سے خوش ہے میں بھی راضی اس سے ہوں
بال بچوں سے جو ان بن ہوگئی تو کیا ہوا
اک ہجومِ عاشقاں تھا اس کی رنگت پر فدا
آخرش وہ میری دلہن ہوگئی تو کیا ہوا
عقدثانی کی تمنا اور بڑھاپا سر پہ ہے
بے سبب الجھن سی الجھن ہوگئی تو کیا ہوا
یہ بھی قسمت کی ہیں باتیں جن سے میں کرتا تھا پیار
ہاں وہی اب میری سمدھن ہوگئی تو کیا ہوا
اچھے اچھے پارٹی اپنی بدلتے ہیں یہاں
وہ اگر تھالی کا بیگن ہوگی تو کیا ہوا
آج بھی شوخی وہی آج بھی مستی وہی
مانا ان کی عمر پچپن ہوگئی تو کیا ہوا
اس کو کہتے ہیں مقدر کیا کہوں مختار میں
بی پڑوسن ان کی سوکن ہو گئی تو کیا ہوا