تلاش شیشے کی۔

رشید حسرت

محفلین
تلاش شیشے کی پتھروں میں کہاں کہاں کی
سمجھ میں آتی نہیں ہیں رسمیں تِرے جہاں کی

شکست کھا کر بھی مسکرانا ھے میری فطرت
کہ مجھ پہ سایہ فگن ھمیشہ دعائیں ماں کی

نصیب اُجڑے کہ دوستوں نے اُجاڑ ڈالا
ھوئی ھے آخر کو انتہا میری داستاں کی

سِکھا کے ریشم سے نرم لہجے میں بات کرنا
کہاں پہ وُسعت میں کھو گیا ھے وہ آسماں کی

جلن ھے آنکھوں میں انتظارِ سحر کی ایسی
کہ جو تمنّا تھی آخرِ شب دھواں دھواں کی

نشیب میں خیمہ زن تھے جو لوگ، اب کہاں ہیں
خزاں سی اک رہ گئی پہاڑوں میں کارواں کی

کبھی تو سانجھے تھے دکھ بھی، خوشیاں بھی ایک سی تھیں
ابھی یہ عالم کہ خشک بیلیں ہیں اس مکاں کی۔

رشید حسرتؔ، کوئٹہ۔
 
Top