تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی

ہاں پنڈت صاحب کی نظم پر ”اعتراض“ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ میاں پنڈت! تم کون ہو ہمارے ”اعمال“ پر گرفت کرنے والے؟ دین ہمارا، عمل ہمارا، ہم جو مرضی کریں۔ لیکن بہر حال پنڈت صاحب نے جس ”خوبصورتی“ سے ہم پر طنز کیا ہے، اس کی داد تو دینی ہی چاہئے، باذوق محفلین کو۔:D یا در جواب آن غزل کے طور پر ہی کچھ پیش کرنا چاہئے تھا۔ یہ نظم نیٹ ورلڈ میں برسوں سے گشت کررہی ہے۔ مجھے ابھی تک اس کا کوئی ”منظوم جواب“ نظر نہیں آیا۔
اوّل تو ابھی تک یہی ثابت نہیں ہوا کہ یہ نظم واقعی کسی ہندو پنڈت نے لکھی ہے، مجھے قوی یقین ہے کہ یہ کارستانی کسی پنڈت کی بجا ئے کسی نام نہاد توحید پرست (شیطانی توحید کے علمبردار) خارجی تکفیری ملّا کی ہے(کیونکہ یہی لوگ اس نظم کو بڑی مشنری سپرٹ کے ساتھ اور بڑی شدّو مد سے پھیلا رہے ہیں،اور میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی ہندو یا ہندو فورم اس نظم کو پھیلا رہا ہو۔)۔۔جہاں تک اسکے جواب کا تعلق ہے تو جواب لکھنا کوئی مشکل کام نہیں بڑی آسانی سے ترکی بہ ترکی جواب لکھا جاسکتا ہے جس میں اس قسم کے توحید پرستوں کی مناسب گوشمالی کی جاسکتی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کی "عالمانہ" نظم کے جواب کیلئے جہالت اور ضلالت کی اسی سطح پر اترنا پڑے گا جس سطح پر بیٹھ کر یہ نظم لکھی گئی ہے۔ یہ تو وہی بات ہوگئی کہ کوئی ملعون نبی کریم کی شان میں گستاخی کرکے انکے خاکے بنائے اور قرآن کو جلائے اور اسکے جواب میں آپ جیسا کوئی مسلمان یہ تقاضا کرنے لگے کہ ہمیں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خاکے بنانے چاہئیں اور ہمیں بھی بائبل کو سرعام جلانے کا مظاہرہ کرنا چائیے (نعوذباللہ)۔۔ ویسے کچھ بعید بھی نہیں ایسے مسلمانوں سے کہ جوشِ جنوں میں کسی دن ایسا بھی کر گذریں۔
ویسے کئی ہندوؤں کی جانب سے یہ اعتراض تو اکثر پیش کیا جاتا ہے کہ جناب ہم تو بتوں کے آگے جھکتے ہیں،آپ بھی تو ایک کالے رنگ کی چوکور عمارت کی جانب جھکتے ہیں، اسکے اردگرد طواف کرتے ہیں، جانوروں کو قربان کرتے ہیں، ہم دسہرے کے دن راون کے بت پر آگ برساتے ہیں، اور آپ منیٰ مین ایک پتھروں سے بنے ہوئے سٹرکچر پر پتھر برساتے ہیں، ہم گنگا کو متبرک سمجھتے ہیں، آپ بھی تو زم زم کو متبرک سمجھتے ہیں۔ ہم ہردوار جاتے ہیں، بنارس یاترا کرتے ہیں، آپ بھی تو مکہ جاتے ہیں زیارت کرتے ہیں۔ ہمارے لوگ جوگ لیتے وقت سر کو منڈواتے ہیں، آپ بھی تو پورے سر کا حلق کروا دیتے ہیں۔۔ ہم گائے نہیں کھاتے تو آپ خنزیر سے کنارہ کش ہیں۔۔آخر یہ سب کیوں؟؟؟؟؟ کیا یہ مشاہبتیں نہیں ہیں؟؟؟؟
واضح ہو کہ ان اعتراضات کے عالمانہ اور حکیمانہ جوابات بڑی آسانی سے دئیے جاسکتے ہیں، لیکن اگر پوچھنے والا اس علمی رویئے اور ادراک کا حامل نہ ہو اور اسکے یہ اعتراض محض اس نظم کی طرح پوائنٹ سکورنگ کیلئے ہوں تو آپ شوق سے ان اعتراضات کے "عالمانہ" یا "جاہلانہ" جواب دیتے پھرئیے۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
بات یہ ہے کہ اگر اصلاح کا عمل طنز و تشنیع اور طعنوں سے کیا جائے تو بات پہلے ہی اپنا وزن کھودیتی ہے
(×) السلام علیکم سسٹر! صد فیصد متفق ہوں

۔ آپ نے قرآن و حدیث کے حوالے تو بعد میں دئے لیکن یہ جو ہندو پنڈت کے "منظوم طنز " کو بہت خوبصورت سمجھ کر پیش کیا ہے ۔ اسی نے بہت لوگوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے
(×) شاید آپ کو یاد ہو کہ اول اول یہ دھاگہ ”تصاویر“ کے زمرے میں پوسٹ کیا گیا تھا۔ ارادہ صرف اور صرف مزارات پہ سجدوں کو نمایاں کرنا تھا، بلا تبصرہ۔ لیکن جب یہ تصاویر پوسٹ ہوگئیں تو میری نظر اس نظم پر پڑی، جو نیٹ پر بہت عرصے سے گشت کر رہی ہے، لہٰذا اسے بھی منسلک کردیا۔ شاید مجھے ”اندازہ“ نہ تھا کہ ہم اپنے اوپر کی گئی تنقید (قطع نظر اس کے کہ تنقید درست ہے یا غلط ) کو ”برداشت“ کرنے کے بھی ”قابل“ نہیں رہے ہیں، بالخصوص اگر یہ تنقید اور طنز کسی ہندو کی طرف سے کی گئی ہو۔

قرآن و حدیث کے ”حوالے“ بعد میں آئیں یا پہلے، اس کے سامنے تو ہر مسلمان کو ہر حال سر تسلیم خم کردینا چاہئے، خواہ اسے پیش کرنے والا کوئی بھی ہو، اور کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ مگر یہاں اس دھاگہ میں ان آیات و حدیث کی ”حمایت“ مین تو شاید ہی کسی نے کچھ بولا ہو، جتنا صاحب دھاگہ کے ”خلاف“ بولا گیا ہے۔ اور یہ آیات بعد میں اس لئے پوسٹ ہوئیں کہ یہاں بات چیت ”بعد“ میں شروع ہوئی، اس نئے زمرے میں ”منتقلی“ کے بعد

- مزاراتِ اولیاء کرام پر جو بھی غلط افعال ہوتے ہیں ان سے کوئی انکار نہیں ، بے شک یہ سب غلط ہے اور ایسا بالکل بھی نہیں ہونا چاہئے لیکن آپکا نشاندہی کا طریقہ مناسب نہیں تھا
(×) میں نے تو تصویری نشاندہی کی تھی۔ اور نیٹ پر ایسی سینکڑوں تصاویر اور ویڈیو موجود ہیں، جن میں مزارات اولیا کرام پر مسلسل غلط افعال ہونے کا ثبوط موجود ہے۔ اور یہ سب کچھ مزارات کی انتظامیہ کی اجازت اور سرپرستی مین ہوتا ہے، بالخصوص عرس کے مواقع پر۔ اگر مزارات کی انتظامیہ قبروں پر لوگوں کو سجدہ کرنے سے روکے، مخلوط اجتماع، ڈھول کی تھاپ اور گھنگرو کی جھنکار پر مخلوط دھمال بعنوان ”سر بازار می رقصم“ نہ ہونے دے تو کسی بیرونی زائر کی کیا مجال کہ وہاں جاکر یہ سب کچھ کرے۔ یہ سب کچھ (الا ماشا ء اللہ) پاک و ہند کے ہر مزار پر، بالخصوص عرس کی تقریبات کا لازمی حصہ ہیں۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو یو ٹیوب وزٹ کریں۔ ایسی تصاویر اور ویڈیوز کی بار بار نشاندہی برائے اصلاح ہوتی رہنی چاہئے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں، انہی کو دین اسلام سمجھیں گیں، بلکہ ایسا کرنے اور کروانے والے تو اسے دین کا حصہ ہی سمجھ کر ”مذہبی جوش و عقیدت“ سے کر رہے ہوتے ہیں۔

- مزاروں کے سجدے، مردوں اور عورتوں کا اختلاط اور دھمال سب ناجائز امور ہیں ۔ ہم کو اس طرح کی حاضری کی تلقین نہیں کی گئی یہ تو کچھ لوگوں نے بزرگانِ دین کو بدنام کرنے کے لئے ان سب امور کا رواج ڈال دیا ہے
(×) تو کیا مزارات کے منتظمین خود بزرگان دین کو بدنام کرنا چاہتے ہیں؟ یہ تو ایک ”بریکنگ نیوز“ ہے۔ پاک و ہند کا ہر مزارَ کا انتطام صاحب مزار کے عقیدتمندوں کی سرپرستی میں چلتا ہے۔ عرس وغیرہ کی تقریبات اور اس دوران ہونے والا ہر ایونٹ ان کی اجازت اور منشا سے عمل میں آتا ہے۔ اور اجتماع عام کے مواقع پر مزار کی انتطامیہ کو مقامی حکومت اور پولس کا تعاون بھی حاصل ہوتا ہے۔ پھر ایسا تسلسل سے آخر کیوں ہوتا ہے، اگر عقیدتمندان صاحب مزار ان امور کو ناجائز سمجھتے ہیں تو؟

- تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سرے سے اولیاء کرام کو برا بھلا کہہ کر ان کو بد نام کیا جائے
(×) متفق

- بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو فی نفسہہ بری نہیں ہوتیں بلکہ انکا اچھا یا برا ستعمال ان کو اچھا یا برا بناتا ہے ۔ جیسے کہ ٹی وی کی مثال لے لیں اب اگر وہ دین کی تبلیغ کے لئے استعمال کیا جائے تو بہت مفید ، لیکن اگر بے حیائی کے لئے استعمال ہو تو کون اسکو اچھا کہے گا ؟ایسے ہی لاتعداد مثالیں موجود ہیں بس بات یہ ہے کہ اسکا استعمال انکو اچھا یا برا بناتا ہے
(×) اس دھاگہ میں زیر بحث ”ایسی چیزیں“ نہیں ہیں بلکہ وہ عوامل ہیں جو فی نفسہ بُری ہیں۔ جیسے مزارات پہ سجدہ کرنا، مرد و زن کا مخلوط اجتماع اور عورتوں کا مردوں کے بیچ دھمال ڈالنا، ۔ آپ کے اسی ” جنرل فارمولے“ کے تحت تو اپنے عبد اللہ عرف پاکستانی بھائی ”شراب“ کو بھی ”برا“ نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر بندہ احتیاط کے ساتھ پیئے اور ہوش و حواس سے بے گانہ نہ ہو تو شراب بُری چیز نہیں۔ اُن کے اس قسم کے باتصویر فرمودات اسی محفل میں بار بار پیش کئے جاچکے ہیں، اور انہیں ایسا کرنے کی بھی ”مکمل آزادی“ حاصل ہے، خواہ اُن کے ایسا کرنے سے دین پسند عام مسلمانوں کی دل آزاری ہی کیوں نہ ہوتی ہو۔

- اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم کو ہر معاملے میں فہم و فراست اور بصیرت سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے آمین
(×) ثم آمین
 

باباجی

محفلین
اس دھاگہ میں پوسٹ کردہ مزار شریف کو سجدہ کرنے والی تصاویر، پنڈت صاحب کی نظم (کہتی ہے ’مجھ‘ کو خلق خدا ۔۔۔ ۔ :eek: ) یا فرقہ واریت سے منع کرنے والی قرآنی آیات ا ور حدیث میں سے جس کسی سے بھی اگر کسی محفل کی دل آزاری ہوئی ہو تو دلی معذرت خواہ ہوں۔ مقصود احباب کی دل آزاری نہ تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ احباب کو کون سی بات بُری لگی اور کیوں؟ کیا مزار شریف کو سجدہ کرنے والی تصویر حقیقت پر مبنی نہیں ہے؟ کیا عرس کے مواقع پر مرد و زن کا مخلوط دھمال اب ٹی وی اور اخبارات کی زینت نہیں بنتا؟ اور کیا یہ سب کچھ اسلام کے عین مطابق ہے؟ اگرنہیں تو اس کی نشاندہی کرنے پر اظہار ناراضگی کیوں؟ ہاں پنڈت صاحب کی نظم پر ”اعتراض“ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ میاں پنڈت! تم کون ہو ہمارے ”اعمال“ پر گرفت کرنے والے؟ دین ہمارا، عمل ہمارا، ہم جو مرضی کریں۔ لیکن بہر حال پنڈت صاحب نے جس ”خوبصورتی“ سے ہم پر طنز کیا ہے، اس کی داد تو دینی ہی چاہئے، باذوق محفلین کو۔:D یا در جواب آن غزل کے طور پر ہی کچھ پیش کرنا چاہئے تھا۔ یہ نظم نیٹ ورلڈ میں برسوں سے گشت کررہی ہے۔ مجھے ابھی تک اس کا کوئی ”منظوم جواب“ نظر نہیں آیا۔ رہی بات قرآنی آیات اور احادیث کی تو یہ آیات صاف صاف ہم سے کہہ رہی ہے کہ ہم فرقوں سے بالا تر ہوکر صرف اور صرف مسلمان بن جائیں۔ آج یا کل ہم سب نے قبر میں جانا ہے، جہاں کسی سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ دنیا مین وہ کس فرقہ، کس مذہب، کس پیر سے وابستہ رہا ہے۔ جو پوچھا جائے گا وہ یہ کہ من ربک، من دینک اور من رسولک۔ تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارا رسول کون ہے؟ ۔ آئیے ہم سب مرنے سے قبل قبر کے انہی سوالات کے جوابات کی تیاری کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا رشتہ قوی کرنے کے لئے قرآن اور سنت کو مضبوطی سے تھام لیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ ایک بار پھر جملہ احباب سے دلی معذرت۔
یوسف بھائی
میں نے تصاویر ایک بار پھر غور سے دیکھیں
مجھے تو سجدے والی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ مجھے ایسا لگا جیسے قبر کو بوسہ دے رہے ہیں
ہاں ایک دفعہ ایک تصویر دیکھے جس میں واضح طور پر ایک شخص بینظیر بھٹو کی تصویر کو سجدہ کررہا تھا ۔
بہرحال تصاویر میں سجدے والی بات غلط لگی مجھے ۔
اب آتی ہے مخلوط دھمال کی بات تو صاف بات یہ ہے کہ یہ واقعی غلط ہے میں آپ سے متفق ہوں
اولیاء کرام کے مزارات کو لوگوں نے بدعت و گمراہی و خرافات کا مرکز بنالیا ہے اور اس کی ذمہ داری ان مزارات کے متولی اور
گدی نشینوں پر عائد ہوتی ہے ۔
اور رہی بات پنڈتوں کے طنز کی تو میرے بھائی یہ بات کرنے والے خود ایک بہت بڑی غلطی کر چکے ہیں اور وہ ہے چھوت چھات کی بناء
پر فرق پیدا کرنے والی تو ظاہر ہے کہ وہ یہ چیز ہم میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں ۔
اور اب بات آتی ہے فرقوں کی تو شاید میں نے جب نیا نیا اردو محفل کو جوائن کیا تھا تو کہا تھا کہ ہر فرقہ یہ آیت بطور ریفرنس
پیش کرتا ہے لیکن خود کبھی عمل نہیں کرتا ۔
کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟؟؟؟
میرے کیا تماشہ ہے یہ ۔ مساجد الگ ہیں کوئی دیوبندی تو کوئی بریلوی تو کوئی اہلحدیث تو کوئی شیعہ
بھائی جب مساجد الگ کرلی تو پھر رخِ قبلہ ایک کیوں ہے
نماز بھی سب ایک جیسی پڑھتے سوائے ایک مسلک کے ۔
میرے ہمیں سب پتا ہے کون کیا ہے لیکن پھر بھی ہم خاموش ہیں پیٹھ پیچھے دشمن منہ پر میٹھے ہیں
اصل میں ہم سب منافق ہیں
جذباتی ہیں ، عقل سلب ہوجاتی ہے ہماری
مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں اور بات کرتے ہیں مسند پر بیٹھ کر اتحاد بین المسلمین کی
آقائے سب جہاںﷺ کے ایثار کی باتیں بڑھ چڑھ کے بیان کرتے ہیں
لیکن عمل صفر ہے بھائی
پہلے اپنے آپ کو اپنے آس پاس کو عمل و اصلاح کے لیئے دعوت دیں پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے
اللہ ہم سب کو ہدایت و نورِ ایمان عطا فرمائے
 

سید زبیر

محفلین
بہت نازک معاملہ ہے​
خیال خاطر احباب چاہئیے ہر دمانیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
اصل میں اولیا کرام کون ہوتے ہیں یہ اللہ کے دوست ہوتے ہیں اور اللہ کے دوست صاحبان علم ہوتے ہیں ۔ اولیا کرام نے حصول علم اور فروغ اسلام کےلئے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ، علی ہجویریؒ نظامالدین اولیاؒ،ابرہیم قندوزی ؒ ، بہااو الدین زکریاؒ ان سب نے فروغ علم اور تبلیغ اسلام میں گرانمایہ خدمات سر انجام دی ہیں ۔ علما وہ طبقہ ہے جو دین کا علم حاصل کر نے کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہوجاتا ہے ۔ان ہی میں سے قاضی ، مفتی کا مقام حاصل کرتے ہیں ۔ ان سب کی بے بہا خدمات ہیں جو مسلمہ ہیں ۔​
مگر مسئلہ تب پیدا ہوا جب ان کے جانشین ان کی اولاد ہوئی ۔ یا گدی نشیں ہوئے جہاں تک وراثت کا تعلق ہے تو ہمارے سامنے حدیث مبارکہ ٓاتی ہے کہ ایک فیصلہ کرتے وقت آقائے نامدار ﷺنے فرمایا کہ اگر اس مقام پر فاطمہ ؓ بھی ہوتیں تو میں یہ فیصلہ دیتا یعنی صرف اولاد ہونا کوئی مرتبت کی دلیل نہیں اللہ کے قریب اہل تقویٰ ہی ہونگے ۔اب عصر حاضر میں اکثر وبیشتر اولیا کرام کی اولاد کی حالت آپ کے سامنے ہے جاہ و حشم ، دولت و ثروت کی ہوس نے انہیں اندھا کیا ہوا ہے یہ وارثان اولیا ، یہ گدی نشیں نہ انہوں نے حصول علم میں عمریں صرف کیں نہ تدریس کی ، کتنی خانقاہیں ہیں جہاں علم کے پیاسے اپنی تشنگی مٹانے جاتے ہیں ،جہاں دینی علوم کی لائبریری ہو ۔ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے​
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیارہ
اب آئیں علما کی طرف ، اسلام میں سب سے زیادہ تلقین جو کی گئی ہے وہ رزق حلال اور پسندیدہ رزق وہ جو ہاتھ سے کمایا جائے ۔موجودہ دور میں یقیناً ایسے بہت سے علما ہیں جو قناعت سے درس و تدریس میں مگن ہیں ان میں سے شائد ہی کوئی ہو جو فرقہ واریت کو پھیلا رہا ہو اسلام امت پر سب سے زیادہ زور اجماع امت پر دیتا ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بیشتر علما ، چندے ، عطیہ جات ہی کو آمدن کا ذریعہ بنا لیتے ہیں مساجد پر قبضے ایسے ہی حضرات کی کارستانیاں ہیں ۔جو ہاتھ لینے والا بن جائے ،محنت کی کمائی سے شکم پری نہ کیجائے تو حق کی آواز کیسے نکلے گی ۔یہ دین کا علم اپنی خطابت کا جادو جگانے کے لیے حاصل کرتے ہیں اور بسا اوقات تو خطابت کے زور سے شرعی حددد بھی پھلانگ جاتے ہیں ۔ علامہ اقبال ؒ نے کیا خوب فرمایا​
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
کلیم بوزرؒ،دلق اویسؒ و چادر زہراؓ
اور یہ حقیقت ہے پچھلے دنوں ایک ٹی وی چینل پر دکھا رہے تھے کہ بابا عبداللہ شاہ غازی ؒ کے مزار پر عقیدت مندوں کی طرف سے چڑھائی جانے والی چادریں دوبار بازار میں بکتی ہیں ۔ پچھلے دنوں میں عشا کی ادءیگی کے لیے جب مسجد پہنچا تو حالات بدلے ہوئے نظر آرہے تھے ۔ دو چار قیمتی گاڑیاں مسجد کے باہر کھڑی تھیںاور ایک مخصوص انداز شریعت کے افراد کی چہل پہل نظر آرہی تھی ۔ مسجد کے ہال میں منبر کے ہوتے ہوئے بیچوں بیچ ایک بڑا عالی شان قسم کا سنگل سیٹر صوفہ دھرا ہوا تھا ۔ صدر دروازے سے مسجد کے ہال تک دو رویہافراد کھڑے تھے ۔ سچی بات ہے میں تو یہ منظر دیکھ کر ہی باہر آگیا اور دوسری مسجد میں چلا گیا ۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ ایک حضرت آے تھے کہ ان سے جو بھی ہاتھ ملاتا اس کرنٹ لگتا اور وہ بقول انکے ایماں کی حرارت سے مرغ بسمل کی طرح تڑپتا ۔اب یہ تبلیغوتعلیم کا انداز ، یہ قیمتی گاڑیاں اور ذرائع آمدنکس کو متاثر کرے گااور اس کے نتائج کیا برامد ہونگے​
اب ہم کیا کریں ؟ تصوف میں انسانوں کی تین قسمیں بتائی جاتی ہیں ایک عام نسان جو مکمل دنیا کی ہوس میں مبتلا ہے اس کی مچال عور سے دی ہے کہ سون اس کی کمزوی ہوتی ہے ۔دوئم وہ افراد جو خامشی سے اپنی عقبا سنوارنے میں لگے رہتے ہیں عبادت کرتے ہیں اور دنیا سے کنارہ کش ہوتے ہیں ان کو تیسر ی جنس قرار دیا ہے کہ یہ بھلے لوگ کسی کو اذیت نہیں پہنچاتے اور اپنی دنیا میں مگن ہوتے ہیں مرد جو ہوتا یہ وہ شخص ہوتا ہے جو خود بھی سیدھے راستے پر چل کر اپنی منزل پاتا اور دوسروں کو بھی گمراہی سے روک کر سیدھی راہ پر لگاتا ہے اور یہی سب سے مشکل کام ہے أیہ وہی سرانجام دے سکتے ہیں جنہیں اللہ قوت عمل کی ہمت ، لگن اور توفیق عطا فرماتا ہے ۔ ہم جیسے ناقص العمل انسان صرف یہ کرسکتے ہیں کہ اعتدال کی راہ پر چلیں ۔شریعت پر عمل کریں ،اور اپنے اہل خانہ کو بھی اس عمل کی ہدائت کریں ۔ اور رہی دعا تو واضح ہے میرا رب میری شاہ رگ سے بھی قریب ۔اس کو میری حاجات کا مجھ سے بہت پہلے علم ہے ۔​
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
شریعت کی پابندی کے ساتھ ساتھ اجماع امت اور حقوق العباد بہت اہم ہیں ۔
 

محمد امین

لائبریرین
shirk2.jpg


0.jpg


26qalandar.jpg


shirk3.jpg
اس دھاگہ میں پوسٹ کردہ مزار شریف کو سجدہ کرنے والی تصاویر،

پہلا جملہ پڑھ کر ہی منہ کا مزا کرکرا ہوگیا اور آپ کا آگے والا بھاشن پڑھنے کا دل نہیں چاہا۔۔۔۔ آپ کے مسلک میں سجدہ ایسے ہوتا ہے :)؟؟؟
 
Top