تری گلی میں رات کو

کبھی سبھی سے ہو کے تنگ
آوارگی کی ٹھان کر
بدل کے بھیس کفر کا
شراب پی کے میں پھروں
تری گلی میں رات کو
چراغ سب بجھے رہیں
کسی کو کچھ خبر نہ ہو
نہ مجھ کو کچھ پتہ چلے
میں چوٹ کھا کے گر پروں
تری گلی میں رات کو
سکوں کی اک گھڑی ملے
ذراسی کچھ ہوا چلے
ہوا میں ایک ساز ہو
میں ساز سن کو روپڑوں
تری گلی میں رات کو
دھواں دھواں سا اٹھ پڑے
کہیں کسی کا دل جلے
دھویں کی روشنی میں میں
ترے محل کو ڈھونڈلوں
تری گلی میں رات کو
میں شوق سے حماس سے
ترے محل اداس سے
ادھر کھڑے حراس سے
بلا سبب جھگڑ پڑوں
تری گلی میں رات کو
تجھے بھی کچھ خبر سی ہو
نشے میں دیکھ کر مجھے
پکڑ لے میرے ہاتھ کو
میں سب بھلا کے چل پڑوں
تری گلی میں رات کو
جلا کے عود وشمع تو
اتار کر حجاب کو
پیالہ بھر شراب دے
خدا کرے سحر نہ ہو
تری گلی میں رات کو​
 
Top