فارسی شاعری تا خرقہ و سجادہ‌ام ارزد درمی چند - سلطان سلیم خان اول عثمانی

حسان خان

لائبریرین
تا خِرقه و سجّاده‌ام ارزَد دِرَمی چند
خواهم طرفِ میکده رفتن قدمی چند
درکَش قدَحی چند و فلک را عدم انگار
در خاطِرت از دُور بِبینی الَمی چند
در گُلشنِ دَوران همه در دَورِ قدَح کن
چون نرگسِ آزاده چو یابی دِرَمی چند
هم‌دم به‌جز از باده مسازید حریفان
از عُمرِ گران‌مایه چو باقی‌ست دمی چند
حالِ دلِ عُشّاق سلیمی تو چه پُرسی
در میکده با عشق و جنون مُتّهمی چند

(سلطان سلیم خان اول)

جب تک میرا خِرقہ و سجّادہ چند دِرہم قیمت رکھتا ہے، میں میکدے کی طرف چند قدم جانا چاہتا ہوں۔
[اگر] تم اپنے قلب و ذہن میں دُور سے چند آلام دیکھو [تو] چند کاسۂ [شراب] نوش کرو اور فلک کو معدوم سمجھو۔
اگر تم کو نرگسِ آزاد کی طرح چند دِرہم مِل جائیں تو گُلشنِ دَوراں میں [اُن] سب کو کاسۂ [شراب] کی گردِش کے لیے [خرچ] کر دو۔
اے ندیمو! جب عُمرِ گراں مایہ کے چند دم باقی ہیں تو شراب کے بجُز کسی کو ہمدم مت بنائیے۔
اے 'سلیمی'! تم عُشّاق کے دل کا حال کیا پوچھتے ہو؟۔۔۔ وہ میکدے میں چند عشق و جُنوں سے مُتّہم [افراد] ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
در خاطِرت از دُور بِبینی الَمی چند
ایک نُسخے میں اِس مصرعے کا یہ متن نظر آیا ہے:
گر خاطِرت از دور بِبیند الَمی چند
اگر تمہارا قلب و ذہن دُور سے چند آلام دیکھے

حالِ دلِ عُشّاق سلیمی تو چه پُرسی
در میکده‌ها عشق و جنون مُتّهمی چند
اگر اِس بیت کے مصرعِ ثانی کا متن یہی ہے تو یہ میری نظر میں فصاحت و بلاغت سے عاری ہے، اور اِس کے مفہوم کو میں بخوبی فہم نہیں کر پایا ہوں۔
پس نوشت: ممکن ہے کہ مصرعے کا اصلی و دُرُست متن یہ ہو:
در میکده با عشق و جنون مُتّهمی چند
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حالِ دلِ عُشّاق سلیمی تو چه پُرسی
در میکده‌ها عشق و جنون مُتّهمی چند
اگر اِس بیت کے مصرعِ ثانی کا متن یہی ہے تو یہ میری نظر میں فصاحت و بلاغت سے عاری ہے، اور اِس کے مفہوم کو میں بخوبی فہم نہیں کر پایا ہوں۔
پس نوشت: ممکن ہے کہ مصرعے کا اصلی و دُرُست متن یہ ہو:
در میکده با عشق و جنون مُتّهمی چند
ایک دیگر کتاب سے تصدیق ہو گئی ہے کہ مصرعے کا دُرُست متن 'با' کے ساتھ ہی ہے:
در میکده با عشق و جنون مُتّهمی چند
لہٰذا بیت پر جو میرا اِشکال تھا، وہ دُور ہو گیا۔
 
Top