بھیگی ہیں جب سے اشکِ عزائے امام سے - نیر جلالپوری

حسان خان

لائبریرین
بھیگی ہیں جب سے اشکِ عزائے امام سے
آنکھیں نظر ملاتی ہیں کوثر کے جام سے
پھیلی ہیں دشتِ شب میں بڑے اہتمام سے
صبحیں نہ قید ہو سکیں زندانِ شام سے
وہ بھی کلامِ پاک کا جزدان ہو گیا
ٹکڑا جو بچ گیا تھا قبائے امام سے
ہونٹوں کی پیاس آنکھوں کو دریا بنا گئی
چشمے ابل رہے ہیں عطش کے نظام سے
کس کا لہو ہے جس سے نمازیں ہیں سرخ رُو
پوچھے کوئی رکوع و سجود و قیام سے
اکبر کے منہ کو چوم کے کہتی تھی مامتا
ملتا ہے میرا چاند رسولِ انام سے
مقتل میں آ رہی ہے جوانی رسول کی
اے زندگی بلند ہو تو اپنے مقام سے
جھولے کے گرد آ گئیں پھولوں کو چھوڑ کر
واقف ہیں تتلیاں علی اصغر کے نام سے
جس کو اسیر کر کے چلا ہے امیرِ شام
بیڑی نے ہار مان لی اس کی خرام سے
قرآن ہے وہاں تو یہاں سجدۂ حسین
ماہِ عزا بھی کم نہیں ماہِ صیام سے
عباس قافیہ ہیں تو زینب ردیف ہیں
اک شعر لکھ رہا ہوں بڑے التزام سے
زین العبا کو دیکھ کے تاریخ نے کہا
قرآن بچ کے آ گیا جلتے خیام سے
بیٹھا تو فرشِ غم پہ، چلا تو علم کے ساتھ
میرا سفر بھی ملتا ہے میرے قیام سے
آنکھوں نے بھی کیا ہے چراغاں پئے عزا
دل بھی دھڑک رہا ہے بڑی دھوم دھام سے
نیر سلام ہے کوئی صنفِ غزل نہیں
لفظوں سے کہہ دو آئیں مگر احترام سے
(نیر جلالپوری)
 

نایاب

لائبریرین
کس کا لہو ہے جس سے نمازیں ہیں سرخ رُو
پوچھے کوئی رکوع و سجود و قیام سے

سبحان اللہ
بلا شک بھرپور و پرنور سلام عقیدت کہا نیر جلالپوری صاحب
بہت شکریہ حسان خان بھائی شریک محفل کرنے پر
 
Top