بس حال کا پوچھنا غضب تھا ۔۔۔

شکوہ تو کوئی کیا ہی کب تھا۔
بس حال کا پوچھنا غضب تھا۔
٭٭٭
کچھ ہم بھی نئے تھے میکدے میں۔
کچھ وہ بھی مزاج کا عجب تھا۔
٭٭٭
واعظ کے خطاب سے یہ جانا۔
بے جا تھا ذرا بھی جو ادب تھا۔
٭٭٭
فرصت جو نہ تھی وہاں کسی کو۔
یاں کون سا کوئی جاں بلب تھا۔
٭٭٭
اک یاد تھی مثلِ ماہِ کامل۔
اور عرصۂِ عمر مثلِ شب تھا۔
٭٭٭
واں اور نصاب تھا وفا کا۔
اپنا ہی ملال بے سبب تھا۔
 
Top