نصیر الدین نصیر بساط بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی

بساط بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش، سبو چپ، اداس پیمانے

نہ اب وہ جلوۂ یوسف نہ مصر کا بازار
نہ اب وہ حسن کے تیور، نہ اب وہ دیوانے

نہ حرف حق، نہ وہ منصور کی زباں، نہ وہ دار
نہ کربلا، نہ وہ کٹتے سروں کے نذرانے

نہ بایزید، نہ شبلی، نہ اب جنید کوئی
نہ اب و سوز، نہ آہیں، نہ ہاؤ ہو خانے

خیال و خواب کی صورت بکھر گیا ماضی
نہ سلسلے نہ وہ قصے نہ اب وہ افسانے

نہ قدر داں، نہ کوئی ہم زباں، نہ انساں دوست
فضائے شہر سے بہتر ہیں اب تو ویرانے

بدل گئے ہیں تقاضے مزاج وقت کے ساتھ
نہ وہ شراب، نہ ساقی، نہ اب وہ مے خانے

پیر نصیر الدین شاہ نصیر
 
Top