برائے تنقید و اصلاح

*غزل*
*محمد اکبر نیازی*

دل کی دھڑکن بھی ہے وہ دل کی تمنا ہی نہیں
میں نے دنیا میں کسی اور کو چاہا ہی نہیں

ہر نفس حال پہ مرکوز رہی ہیں نظریں
میں نے ماضی کو پلٹ کر کبھی دیکھا ہی نہیں

میں نے منجدھار میں چاہی ہے خُدا سے امداد
ناخدا کو مری غیرت نے پکارا ہی نہیں

کون رہتا ہے مرے دل میں تمہیں کیا معلوم
تم نے آنکھوں میں کبھی غور سے دیکھا ہی نہیں

اب تو طوفاں کے تھپیڑوں میں مزہ آتا ہے
اہلِ ساحل! مجھے ساحل کی تمنا ہی نہیں

اِن اندھیروں کو کوئی میری نظر سے دیکھے
کون کہتا ہے مرے گھر میں اُجالا ہی نہیں

عین گرداب تو لوگوں نے یہی مجھ سے کہا
تیری کشتی کے مقدر میں کنارا ہی نہیں

آرزوؤں کی بھی دُنیا ہے نگاہوں میں مری
میری آنکھوں میں فقط آپ کی دُنیا ہی نہیں

اکبر! اس بات پہ مَیں کیسے یقیں کر لیتا
لوگ کہتے ہیں کہ دُنیا کا تو چہرہ ہی نہیں
 
Top