برائے اصلاح

دکھ درد سے یاری ہے
دل چین سے عاری ہے
انسان خدا کے ہاں
"نوری ہے نہ ناری ہے"
آنگن کی فضاؤں پر
اک خوف سا طاری ہے
اس دیس کا ہر بندہ
ظلمت کا پجاری ہے
جو بات بھی کرتا ہوں
ہر بات تمھاری ہے
دکھ ہجر کی تلخی کا
ہر درد پہ بھاری ہے
مقتل سے صدا آئی
اب نور کی باری ہے
 
Top