برائے اصلاح : مجھ سے ہر حال میں کرتے ہیں عداوت اپنے

یاسر علی

محفلین
الف عین صاحب
محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محمد خلیل الرحمٰن صاحب



مجھ سے ہر حال میں کرتے ہیں عداوت اپںے
یہ کسی طور بدلتے نہیں عادت اپنے

ڈر سے بنیاد مرے دل کی لرز جاتی ہے
جب کبھی آنکھ سے کرتے ہیں شرارت اپنے

میرے اپنوں نے اجاڑا ہے گلستاں دل کا
کون کہتا ہے کہ کرتے ہیں حفاظت اپنے

ایک سے جان چھڑاؤں تو اور آ جاتی ہے
بے تکلف ہی جو دیتے ہیں مصیبت اپنے

تلخ لہجے سے مرے ساتھ ہیں بولا کرتے
بے نیازانہ ہی رکھتے ہیں طبیعت اپنے

دہر میں جینے کی امید نہیں باقی رہتی
زندگی ایسے بنا دیتے ہیں قیامت اپنے

میرے منہ پر مری کرتے ہیں بڑی تعریفیں
پیٹھ کے پیچھے بہت کرتے ہیں غیبت اپنے

بسترِ مرگ پہ برسوں سے پڑا ہوں لیکن
میری کرنے نہیں آئیں ہیں عیادت اپنے

زندگی درد کو سہتے ہوئے کاٹی میثم
اس طرح دیتے رہے مجھ کو ازیّت اپنے

یاسر علی میثم
 
مجھ سے ہر حال میں کرتے ہیں عداوت اپںے
یہ کسی طور بدلتے نہیں عادت اپنے
عداوت کی نہیں، رکھی جاتی ہے۔
دوسرا مصرع بہت کمزور اور الجھا ہوا ہے۔
یوں تو رکھتے ہیں وہ لہجے میں حلاوت اپنے
ساتھ رکھتے ہیں مگر دل میں عداوت اپنے

ڈر سے بنیاد مرے دل کی لرز جاتی ہے
جب کبھی آنکھ سے کرتے ہیں شرارت اپنے
شرارت کے بعد کاما لگانا پڑے گا، ورنہ اپنے کی ضمیر پر آنکھ کی جانب لوٹنے کا شائبہ ہو گا، جو گرامر کے حساب سے ٹھیک نہیں۔ علاوہ ازیں محاورتاً آنکھوں سے شرارت کرنا کہنا چاہیے۔

میرے اپنوں نے اجاڑا ہے گلستاں دل کا
کون کہتا ہے کہ کرتے ہیں حفاظت اپنے
پہلا مصرع ماضی کے صیغے میں ہو تو زیادہ بہتر رہے گا، یعنی اجاڑا تھا۔

ایک سے جان چھڑاؤں تو اور آ جاتی ہے
بے تکلف ہی جو دیتے ہیں مصیبت اپنے
دوسرے مصرعے میں بے تکلف سے کیا مراد ہے؟ مصیبت دینا بھی قرینِ محاورہ نہیں۔

تلخ لہجے سے مرے ساتھ ہیں بولا کرتے
بے نیازانہ ہی رکھتے ہیں طبیعت اپنے
تلخ لہجے ’’میں‘‘ بولا جاتا ہے، سے نہیں ۔۔۔ طبیعت کے لیے بے نیازانہ کہنا ٹھیک نہیں ۔۔۔ کسی ایک مخصوص انداز یا روش کو تو بے نیازانہ کہا جا سکتا ہے ۔۔۔ مثلاً وہ بے ہمارے سامنے سے بے نیازانہ گزر گئے، یا وہ بے نیازانہ زندگی بسر کرتے ہیں ۔۔۔۔ تاہم طبیعت کے لیے محض بے نیاز کہا جائے گا کہ وہ بے نیاز طبیعت رکھتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ بے نیاز طبع رکھنے والا تلخ لہجے میں کیوں بات کرے گا؟ لہجے میں تو تلخی تو اسی کے ہوگی جس کو آپ سے کوئی تعلق، واسطہ یا غرض ہو۔

دہر میں جینے کی امید نہیں باقی رہتی
زندگی ایسے بنا دیتے ہیں قیامت اپنے
دونوں مصرعے میں بحر میں نہیں۔

میرے منہ پر مری کرتے ہیں بڑی تعریفیں
پیٹھ کے پیچھے بہت کرتے ہیں غیبت اپنے
دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔ پہلے کی بنت بھی بہتر کی جاسکتی ہے۔ محاورہ ’’پیٹھ پیچھے‘‘ ہے، پیٹھ کے پیچھے نہیں
میرے منہ پر تو بہت کرتے ہیں تعریف مری
پیٹھ پیچھے وہی پھر کرتے ہیں غیبت، اپنے

بسترِ مرگ پہ برسوں سے پڑا ہوں لیکن
میری کرنے نہیں آئیں ہیں عیادت اپنے
دوسرے مصرعے کو یوں کرلو،
آج تک آئے نہ کرنے کو عیادت، اپنے

زندگی درد کو سہتے ہوئے کاٹی میثم
اس طرح دیتے رہے مجھ کو ازیّت اپنے
پہلے مصرعے میں درد کے بعد ’’کو‘‘ اضافی، اور فصاحت کے منافی ہے۔ محض درد سہتے ہوئے کہنا چاہیے۔
زندگی بن گئی اک دردِ مسلسل میثمؔ
اس طرح دیتے رہے مجھ کو اذیت اپنے
 

یاسر علی

محفلین
بہت بہت شکریہ سر جی!

محمّد احسن سمیع :راحل:

اب دوبارہ دیکھ دیجئے جناب!

ڈر سے بنیاد مرے دل کی لرز جاتی ہے
جب کبھی آنکھوں سے کرتے ہیں شرارت،اپنے

یونہی ناراض ہر اک بات پہ ہو جاتے ہیں
مجھ سے الجھی ہوئی رکھتے ہیں طبیعت، اپنے

ایک سے جان چھڑاؤں تو اور آ جاتی ہے
ڈال دیتے ہیں نئی روز مصیبت، اپنے

کوئی امید نہیں جینے کی باقی رہتی
زندگی اس طرح کرتے ہیں قیامت، اپنے

مجھ کو اپنوں نے رلایا تو میں سمجھا ،کہ جہاں
ٹھیک کہتا تھا، نہیں کرتے محبت، اپنے
 
ایک سے جان چھڑاؤں تو اور آ جاتی ہے
ڈال دیتے ہیں نئی روز مصیبت، اپنے
مصیبت ڈال دینا بھی درست محاورہ نہیں ۔۔۔ شاید پنجابی میں اس طرح کہا جاتا ہے

کوئی امید نہیں جینے کی باقی رہتی
زندگی اس طرح کرتے ہیں قیامت، اپنے
قیامت کرنے کا مطلب ظلم ڈھانا، ہنگامہ کھڑا کرنا وغیرہ ہوتا ہے ۔۔۔۔ اس لیے ’’زندگی قیامت کرنا‘‘ کہنا ٹھیک نہیں۔
 
Top