ابن توقیر
محفلین
غزل
بات کے پھول نہیں ہاتھ کے پتھر دیکھو
تم ذرا غور سے اخلاص کے پیکر دیکھو
قریۂ جاں سے کسی روز گزر کر دیکھو
اپنی صورت کبھی شیشے میں اتر کر دیکھو
جذبۂ سوزِ درونِ غمِ الفت کیا ہے
شبِ ہجراں مری آہوں میں چمک کر دیکھو
جلوۂ حسنِ فراواں کی حقیقت کیا ہے
صحنِ گلشن میں کبھی صبح کا منظر دیکھو
کوئی ذرہ کسی سورج سے نہیں ہے کم تر
ذات کے خول سے باہر تو نکل کر دیکھو
عیشِ فردوس کہیں مر کے مِلا کرتا ہے
حور و غلماں کی تمنا ہے تو مر کر دیکھو
وہ تہی دست سہی دل کا غنی ہے لیکن
دوستو! تم کبھی توقیر سے مل کر دیکھو
توقیر علی زئی
1953-2001
بات کے پھول نہیں ہاتھ کے پتھر دیکھو
تم ذرا غور سے اخلاص کے پیکر دیکھو
قریۂ جاں سے کسی روز گزر کر دیکھو
اپنی صورت کبھی شیشے میں اتر کر دیکھو
جذبۂ سوزِ درونِ غمِ الفت کیا ہے
شبِ ہجراں مری آہوں میں چمک کر دیکھو
جلوۂ حسنِ فراواں کی حقیقت کیا ہے
صحنِ گلشن میں کبھی صبح کا منظر دیکھو
کوئی ذرہ کسی سورج سے نہیں ہے کم تر
ذات کے خول سے باہر تو نکل کر دیکھو
عیشِ فردوس کہیں مر کے مِلا کرتا ہے
حور و غلماں کی تمنا ہے تو مر کر دیکھو
وہ تہی دست سہی دل کا غنی ہے لیکن
دوستو! تم کبھی توقیر سے مل کر دیکھو
توقیر علی زئی
1953-2001