بابری مسجد مقدمے میں نیا موڑ

فخرنوید

محفلین
بھارت کے سب سے حساس اور طویل ترین مقدمے میں اُس وقت نیا موڑسامنے آیا جب اُتر پردیش کے چیف سیکریٹری نے مقدمے کی سماعت کے لیے بنائی گئی خصوصی بینچ کے روبرو انکشاف کیا کہ اُس وقت کے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور وزیرِ داخلہ سردار ولب بھائی پٹیل نے ریاستی وزیرِ اعلیٰ گووند بلبھ پَنت کو جو خطوط لکھے تھے وہ سب فائل سے غائب ہوگئے ہیں اورتلاش کے باوجود نہیں ملے۔

خصوصی بینچ نے اِس کا شدید نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ اُن ٹیلی گرام اور خطوط کو تلاش کرکے خصوصی بینچ کے روبرو پیش کرے جِس کی سماعت کے لیے آٹھ جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل نے ریاستی وزیرِ اعلیٰ پَنت کولکھا تھا کہ 22دسمبر 1950ء کو چوری چُھپے ہندو شرپسندوں نے بابری مسجد کے اندر جو مورتیاں رکھ دی ہیں اُنھیں وہاں سے فوراً ہٹا دیا جائے، کیونکہ اِس سے نقصِ امن کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔

فیض آباد کے کمشنر کے کے نائر نے ریاستی حکومت کے نام ایک مکتوب میں تسلیم کیا تھا کہ 22دسمبر 1949ء کو بابری مسجد میں عشا کی نماز ادا کی گئی تھی اور اُسی رات ملزمین نے مسجد میں چوری چھپے مورتیاں رکھ دیں تھیں۔

مقدمے کی اگلی شنوائی آٹھ جولائی کو ہوگی۔ یاد رہے کہ چھ دسمبر 1992ء کو شدت پسندوں کے ہجوم نے بابری مسجد شہید کردی تھی۔

بشکریہ: وائس آف پاکستان
 
Top