ایک گمنام سپاہی کی قبر پر

بنگش

محفلین
تیری مہراب پہ اے عصر کہن کی تاریخ
صرف گو تم کے حسیں بت کا تبسم کیوں ہے
کس ليئے کیل سے لٹکی ہے فقط ایک صلیب
ایک زنجیر کے حلقے کا ترنم کیوں ہے
ایک ارسطو سے ہے کیوں گوشہءدانش پر نور
ایک سقراط کے سینے کا تلاطم کیوں ہے

اسی محراب کے سائے میں کئ ابن علی
کئ خونخوار یزید وں سے رہے گرم ستیز
تیرے مسلک میں رہی نام و نسب کی تو قیر
تیرا ہیرو کوئ خسرو ہے تو کو ئ پرویز
تو نے اقوام کے انبوہ سے وہ لوگ چنے
جن میں سے کوئ جہانگیر ہے کوئ چنگیز

تجھ سے ممکن ہو تو اے نا سخ ایام کہن
اپنے گمنام خزانوں کو بچا کر رکھ لے
رات بے نام شہیدوں کے ليے روتی ہے
ان شہیدوں کا لہو دل سے لگا کر رکھ لے
ماؤں کے میلے دوپٹوں میں ہیں جو آنسو جذب
ان کو آنکھوں کے چراغوں میں سجا کر رکھ لے

عام شکلوں میں بھی ہے عارض سلمی کا جمال
ان کو بھی دیکھ۔ صنم خانہ بنے یا نہ بنے
ہو گئے راکھ جو پر ، چن انہیں خاکستر سے
سرخی ء جرات پرو انہ بنے یا نہ بنے
زیست کے جو ہر نایاب کی تشہیر تو کر
اس کی تشہیر سے افسانہ بنے یا نہ بنے
 
Top