ایک قطعہ اور اس کی انسپریشنز

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کہا نامہ بر نے جواب دو خطَ شوق عاشق زار کا
وہیں خط کو آگ میں ڈال کے کہا کہیو خط کو جلا دیا
مجھے دفن کر چکو جس گھڑی تو پھر اس سے کہنا کہ اے پری
وہ جو تیرا عاشق زار تھا ، تہ خاک اس کو دبا دیا۔۔۔۔
بہادر شاہ ظفر۔۔۔

جون ایلیا کی غزل کا ایک مصرع:
ترا انتظار بہت کیا، ترا انتظار بھی اب نہیں۔۔۔۔۔

یہ دونوں مل کر میرے ایک قطعے کی انسپریشن بنے:
نہ وہ زندگی ہے نہ زندگی کی وہ مسکراتی بہار ہے
یہ جمال یار کو کیا ہوا کہ خیال یار بھی اب نہیں؟
کسی نازنیں سے کسی نے جب مرا حال پوچھا تو رو پڑی
کہا مدتیں ہوئیں چل بسا، کوئی سوگوار بھی اب نہیں

(زیر نظر قطعے میں مکالمے کا سا انداز بہادر شاہ ظفر کا اور قافیہ و ردیف جون ایلیا کا ہے)
 
Top