ایک غزل

اظہرالحق

محفلین
جیسے کوئی دیوانہ سر ٹکراے ہے دیواروں سے
اس طرح محفل میں تری ہم تو چلے آتے ہیں
روز جلتے ہیں بجھتے ہیں چراغوں کی طرح
روز سورج کی طرح ابھرتے ہیں ڈھلے جاتے ہیں

نام لیتے ہیں تیرا خاموشی سے نہ جانے کیونکر
اپنی چاہت کی خواہش سے بھی ڈرے رہتے ہیں
تیرے حسیں سراپے کو سجایا ہے اپنی آنکھوں میں
خواب کیسے میرے نینوں میں گلے رہتے ہیں

رقیبوں کی گلیوں میں بھی لگا آئے ہیں چکر
ایسے گلیوں میں بھی کچھ لوگ بھلے رہتے ہیں
سانس آتی ہے مگر ، روح تک اترتی ہی نہیں ہے
زندگی سے بہت ہم کو گلے رہتے ہیں

اظہر تیرے لفظوں کی قیمت کوئی چکاتا نہیں
شعر جذبوں کے بنا کیونکر یوں پڑھے جاتے ہیں
ظلم اتنا بڑھ گیا ہے تیری میری دنیا میں اظہر
خزاں کے پتوں کی طرح انساں جھڑے جاتے ہیں
 

بدر

محفلین
جناب! بہت اچھا لکہا ہے آپ نے ۔ داد قبول کیجییے۔ لیکن کچھ عرض کرنا چاہوں ‌گا۔ غزل میں‌مطلع لازمی ہے ورنہ وہ نظم بن جاتی ہے ۔اور دوسرا ردیف، قافیہ کا بھی خیال رکھیں۔ اس سے آپ کی شاعری میں‌نکھار اور پختگی آئے گی۔ شکریہ
 
Top