ایک غزل تنقید، تبصرہ اور رہنمائی کیلئے،'' پھر کسی وقت پر اُٹھا رکھو''


پھر کسی وقت پر اُٹھا رکھو
آرزوئیں مگر سجا رکھو

اب ضرورت کبھی تو پڑتی ہے
کوئی تو راستہ کھُلا رکھو

مبتلا ہو گئے محبت میں
بس کہ لازم ہے اب دوا رکھو

اپنی رنگت سُفید کھو دے گا
اور رنگوں سے تو جُدا رکھو

وہ اسی راستے سے آئے گا
پھول رکھو تو جابجا رکھو

ایک درویش، ایک کُٹیا ہے
کیا اُٹھا لو وہاں سے، کیا رکھو

دل کو اظہر صنم کدہ نہ بنا
بُت نکالو، وہا ں خُدا رکھو​
 
آخری تدوین:
Top