ایک صداؤں کا سمندر ٹھہر گیا ہے ثروت زہرا

سیما علی

لائبریرین
صداؤں کا سمندر
میرے جسم میں
ایک صداؤں کا سمندر ٹھہر گیا ہے
یہ میری آنکھ
کسی خواب کے پیہم چٹخنے کی
گونج دے رہی ہے
میں اپنی کوکھ میں سے
خاموشیوں کے ہمکنے کی
آواز سن رہی ہوں
اور پھر!
میری انگلی کی پوروں سے
میرے حرف بہے جا رہے ہیں
میرے خون کی روانیاں
جسم کی نالیوں میں سے
کسی بپھرتی ہوئی موج کی طرح
اپنے ساحل کو پکارتی ہیں
اور میری سانس
میرے اعضا کے بیچ سے یوں جا رہی ہے
جیسے
ویران جھاڑیوں کے درمیان سے
گزرتی ہوئی وہ ہوا ہو
جو سوکھے ہوئے زرد پتوں کے راز بانٹتی ہے
اور میں اپنے جسم کی بوسیدہ دیوار سے کان لگائے
ہر ایک صدا کو بغور سن رہی ہوں
اور شاید انہی میں بہہ رہی ہے
 
Top