ایک سونے جیسا فنکار

سید زبیر

محفلین
ایک سونے جیسا فنکار

ندیم ایف پراچہ تاریخ اشاعت 14 جون, 2014

گھوٹکی تعلقہ، صوبہ سندھ کے شمالی اضلا ع میں ایک چھوٹا سا ٹاؤن ہے- یہاں آباد لوگوں کی اکثریت مقامی سندھی ہے، لیکن اس ٹاؤن میں ایک بڑی تعداد مہاجر، بلوچ، پختون پنجابیوں کی بھی ہے-پورے ضلع گھوٹکی کی طرح، گھوٹکی تعلقہ بھی، بڑی حد تک ایک انڈسٹریل ٹاؤن ہے جہاں مینوفیکچرنگ اور پروڈکشن پلانٹس اور فیکٹریوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے-تاہم، انیس سو اسی کی دہائی کے آغاز اور وسط میں گھوٹکی کسی اور وجہ کی بنا پر مشہور ہوا جسکا ان فیکٹریوں سے کچھ لینا دینا نہ تھا-

بہت سے پاکستانیوں نے رنگین پینٹنگ سے سجے ہوئے ٹرکوں اور لاریوں کے پیچھے لکھی اس تحریر پر غور کرنا شروع کیا -"کفیل بھائی گھوٹکی والے --- رائٹ آرم لیفٹ آرم اسپن بولر"جب پاکستان کی سڑکوں پر بڑی تعداد میں ان الفاظ سے مزین ٹرک اور لاریاں نظر آنے لگے تو متجسس موٹرسٹ ان ٹرک ڈرائیوروں کو روک کر سوال کرنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر یہ کفیل بھائی صاحب ہیں کون (اور یہ رائٹ آرم لیفٹ آرم اسپن بولر آخر کیا بلا ہے)؟مزے کی بات یہ ہے کہ ابتداء میں بہت سے ڈرائیور اس بات سے لاعلم تھے کہ انکے ٹرکوں کے پیچھے پینٹڈ رنگ برنگی تصویروں کے نیچے یہ تحریر بھی موجود ہے-جب اس عمل کے بارے میں ایک علاقائی سندھی اخبار تحقیقات کی تو انہیں معلوم ہوا کہ کفیل بھائی گھوٹکی کی ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے کرکٹ کے شوقین اور ایک باصلاحیت پینٹر ہیں-انیس سو ستر اور اسی کی دہائی کے بیچ وہ خود کو دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں سے تباہ کن آف-اسپن بولنگ کروانے والا واحد بولر سمجھتے تھے- انہیں گھوٹکی کے چند کرکٹ کلبز میں جگہ تو مل گئی جہاں انہوں نے کرکٹ کے گندے میدانوں میں اپنی منفرد صلاحیت دکھانے کی کوشش بھی کی-وہ دونوں ہاتھوں سے بولنگ کر تو لیتے تھے یہ اور بات ہے کہ بال مشکل ہی سے ٹرن ہوتی تھی اور اکثرایسا ہوتا کہ بیٹس مین انہیں کلینرز کے پاس لے جاتے-ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کے مصداق کفیل بھائی نے اپنی ناکامی کا الزام گھوٹکی کی ناہنجار وکٹوں کو ٹھہراتے ہوے، سندھ کے چمکتے دمکتے شہر اور دارلحکومت کراچی کے کرکٹ میدانوں میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا-کراچی میں بھی انہیں ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا وہ کسی کلب میں جگہ نہ بنا پائے چناچہ دل شکستہ ہوکر واپس گھوٹکی لوٹ آئے انہوں نے خود کو یہ باور کرا لیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ انکی منفرد صلاحیتیں سمجھنے سے قاصر ہے-گھوٹکی آکر، کفیل بھائی نے ہائی وے پر موجود پیٹرول پمپس کے ساتھ بنے چائے خانوں اور ڈھابوں پر وقت گزارنا شروع کردیا-یہ چائے خانے اور ڈھابے ایسے ٹرک ڈرائیوروں کی آماجگاہ تھے جو کراچی (جنوب میں ) سے پشاور (شمال میں ) تک صنعتی سامان، گندم اور گنّا وغیرہ لے کر آتے جاتے رہتے-ان میں سے اکثر ٹرکوں پر نقش و نگار بنے ہوتے، کفیل بھائی نے ان ٹرکوں کو ٹارگٹ کیا جو سادہ تھے اور انہیں پینٹ کی پیشکش کی- انہوں نے صرف ٹرک ڈرائیوروں سے رنگوں اور برشوں کے پیسے مانگے-ٹرک ڈرائیوروں کو انکا کام بہت پسند آیا، زیادہ تر اڑتے ہوئے عقابوں، گھوڑوں، مشہور گلوکارہ میڈم نور جہاں اور لیڈی ڈیانا کی تصویروں پر مشتمل ہوتا- لیکن جو راز ان پر کبھی نہ کھلا وہ یہ تھا کہ کفیل بھائی اپنے کام کے ساتھ ان ٹرکوں پر اپنے دستخط بھی کرجاتے تھے، 'کفیل بھائی گھوٹکی والے --رائٹ آرم لیفٹ آرم اسپن بولر '-جب (سنہ انیس سو ستاسی میں) بعض مین سٹریم اردو ویکلی میں کفیل بھائی پر ایک دو فیچر لکھے اور ٹرک اور وین ڈرائیور ان سے اصرار کر کے اپنی گاڑیوں پر کفیل بھائی کے دستخط لکھواتے تب بھی انہوں نے اپنے کام کے پیسے لینے سے انکار کر دیا- اجرت میں وہ بس کچھ رنگ اور برش اور کبھی کبھار چائے خانے سے چائے کا ایک کپ مانگتے-تب تک کفیل بھائی اپنے دستخط میں مزید تبدیلی لاچکے تھے، اب وہ لکھتے تھے،'مشہور زمانہ اسپن بولر، کفیل بھائی کو سلام '-اب سوال یہ ہے کہ وہ اپنی گزر اوقات کے لئے کیا کرتے تھے؟ کچھ بھی نہیں، ان کے کھانے پینے کا خرچہ وہ ٹرک اور لاری ڈرائیور اٹھاتے جن کی گاڑیاں کفیل بھائی پینٹ کرتے-سنہ انیس سو بانوے میں کفیل بھائی شہرت کی بلندیوں پر پنہچ گئے جب ایک فرنچ آرٹ میگزین نے ان کے 'ٹرک آرٹ' کی کچھ تصویریں چھاپیں- فرنچ مرد و خواتین کے ایک گروپ ان سے ملنے گھوٹکی بھی آیا- انہوں نے کفیل بھائی کو فرانس چلنے کی پیشکش کی جہاں وہ پیرس کی چند پبلک بسیں اور ٹرک پینٹ کروانا چاہتے تھے-

کفیل بھائی مان تو گئے مگر ایک شرط پر: انہیں ان تمام ٹرکوں اور بسوں پر اپنے 'دستخط' کرنے کی اجازت ہو- ان کے فرنچ سرپرستوں نے اس بات کی ضمانت دینے سے معذرت کرلی البتہ اچھے معاوضے کا وعدہ ضرور کیا- یہ سن کر کفیل بھائی نے انکار کردیا!!کفیل بھائی اب تیس سے اوپر کے ہو چکے تھے، ایک دن انہوں نے پینٹ کرنا بند کردیا-اپنے ایک فین سے کچھ رقم ادھار لے کر انہوں نے فرنیچر کی دکان کھول لی- کاروبار جم جانے کے بعد انہوں نے شادی کا ارادہ کیا-پھر اچانک، دہائی دو ہزار کے آغاز میں وہ سب کچھ بیچ باچ کر بیگم کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے-کوئی نہیں جانتا کہ کفیل بھائی کراچی میں کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں- انہوں نے منظر عام سے غائب ہوجانے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی آھستہ آھستہ ٹرکوں پر بنی انکی تصاویر اور دستخط بھی غائب ہوتے چلے گئے-

53621ebae4967.jpg


http://urdu.dawn.com/news/1005783/14jun14-man-with-the-golden-arms-nfp-dee-aq
 
Top